پولٹری بحران‘ جی ایم او ٹیکنالوجی اور اس کا مستقبل…(2)

دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور بنی نوع انسان کو اس سلسلے میں جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ فوڈ سکیورٹی کا ہے‘ یعنی بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے اپنی خوراک کی پیداوار کا مسئلہ درپیش ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی خوراک روایتی طریقوں سے پوری کرنا اب ناممکن ہوتا جا رہا ہے‘ لہٰذا اس آبادی اور میسر خوراک کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو پورا کرنے کی غرض سے فصلات کی ترقی دادہ اقسام اور بیجوں پر کام ہوا۔ پھر اگلے مرحلے میں ہائبرڈ بیج اور فصلات منظر عام پر آئیں جب زرعی اجناس کی دو اقسام کے ملاپ سے F1بیجوں کی مدد سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کی ٹیکنالوجی نے خوراک کی رسد اور طلب کے درمیانی فرق کو نہ صرف کم کیا بلکہ مستقبل کی ضرورت کو بھی پورا کرنے میں کامیابی حاصل کی‘ تاہم آبادی میں روز افزوں اضافے کے باعث ضروری ہو گیا تھا کہ خوراک کے ذرائع مزید بہتر کئے جائیں۔ اس کا ایک ذریعہ یہ تھا کہ فصلات کو ضرر رساں کیڑوں سے ممکنہ حد تک محفوظ بنا کر زیادہ پیداوار حاصل کی جائے۔ اس غرض سے GMO ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی۔
جی ایم او یعنی Genetically modified organismکے ذریعے کسی جاندار‘ پودے یا خوردبینی جرثومے کے نسبی مادے کی خلقی ہیئت (DNA) میں ایسا جین ڈال دیا جائے جو اسے مختلف ضرر رساں کیڑوں یا بیماریوں سے محفوظ رکھ کر اس کی پیداواری صلاحیت کو بڑھا سکے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی اجناس‘ فصلات‘ سبزیوں اور جانداروں کے ڈی این اے میں بی ٹی بیکٹیر یا یعنی bacterium Bacillus thuringiensisداخل کر دیا جاتا ہے اور یہ اجناس‘ فصلات یا جاندار اپنے جین کے اندر ہی ان حملہ آور کیڑوں سے مدافعتی صلاحیت لے کر پیدا ہوتی ہیں اور اس جین کے باعث ضرر رساں کیڑے اس فصل کو نقصان پہنچانے کی غرض سے حملہ آور ہوتے ہیں تو اس بیکٹیر یا کے ذریعے پیدا ہونے والا زہر ان کو ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ بی ٹی ٹیکنالوجی کپاس‘ مکئی‘ تمباکو‘ آلو اور سویابین وغیرہ کی فصلات میں استعمال ہو رہی ہے۔
مرغیوں کی خوراک کے گوشت میں تبدیل ہو جانے کی نسبت کو ایف سی آر (Feed Conversion Ratio) کہتے ہیں‘ یعنی کتنی خوراک کے استعمال سے مرغی کتنا وزن حاصل کرتی ہے۔ کسی زمانے میں پچاس کلو گرام فیڈ سے تیئس کلو گرام کے قریب وزن حاصل کیا جاتا تھا یعنی یہ نسبت پچاس اور تیئس تھی تاہم اب خوراک کے اجزا بہتر ہونے کے باعث یہ نسبت پچاس اور چونتیس ہو چکی ہے۔ سویابین کا متبادل سورج مکھی یا کپاس کے بنولے کا میل ہو سکتا ہے مگر پاکستان کے اندر یہ دونوں چیزیں اس حد تک دستیاب نہیں جتنی کہ ان کی طلب ہے۔
اگر دنیا میں فصلوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی فصل مکئی ہے جس کا کاشتہ رقبہ پچاس کروڑ ایکڑ کے لگ بھگ اور پیداوار بارہ سو ملین ٹن کے قریب ہے۔ دوسری بڑی فصل گندم گو کہ پچپن کروڑ ایکڑ کے قریب رقبے میں کاشت ہوتی ہے مگر اس کی پیداوار مکئی سے کم ہے جو ایک ہزار سے گیارہ سو ملین ٹن کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ تیسری بڑی فصل چاول ہے جس کا رقبہ چالیس کروڑ ایکڑ اور پیداوار چھ سو پچاس ملین ٹن جبکہ چوتھی بڑی فصل سویابین ہے جو تیس کروڑ ایکڑ میں کاشت ہو کر ساڑھے چار سو ملین ٹن پیداوار دیتی ہے۔ قارئین! اگر یہ ہندسے تھوڑے اوپر نیچے ہو جائیں تو براہ کرم اس سے درگزر کر لیجئے گا کہ میں کالم لکھ رہا ہوں نہ کہ پی ایچ ڈی کا تھیسس تحریر کر رہا ہوں جس میں اونچ نیچ ناقابلِ معافی ہوتی ہے۔
درج بالا چاروں بڑی فصلوں میں سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی گندم اور چاول دنیا کے مختلف حصوں میں بنیادی انسانی خوراک کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جبکہ پہلے اور چوتھے نمبر پر آنے والی مکئی اور سویابین جانوروں کی خوراک کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ اگر زرعی حوالے سے دنیا میں کوئی ملک سب سے زیادہ ترقی یافتہ کہا جا سکتا ہے تو وہ امریکہ ہے اور اس میں بھی سب سے بڑی فصل مکئی کی ہے‘ امریکہ میں سویابین دوسری اور گندم تیسری بڑی فصل ہے۔ دنیا بھر میں سویابین کی کل پیداوار کا پچاسی فیصد کے قریب صرف امریکہ‘ برازیل‘ ارجنٹائن اور چلی وغیرہ میں پیدا ہوتا ہے اور اس پیداوار کا نوے فیصد سے بھی زائد جی ایم او ہے۔ یعنی دنیا بھر میں پیدا ہونے والی کل سویابین کا پچاسی فیصد صرف براعظم شمالی اور جنوبی امریکہ میں پیدا ہوتا ہے اور یہ تقریباً سارے کا سارا جی ایم او ہے۔ دنیا بھر میں سویابین کی پیداوار میں امریکہ‘ برازیل اور ارجنٹائن کے بعد چوتھا بڑا ملک چین اور پانچواں بھارت ہے۔چین میں فی الحال تو جی ایم او سویابین پیدا نہیں ہو رہی تاہم امریکہ میں فی ایکڑ تقریباً پینتیس من کے مقابلے میں چین میں صرف پندرہ من فی ایکڑ سویا بین پیدا ہو رہی ہے اور چین اگلے چند سال میں اپنی ملکی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے پیداوار میں اضافہ کرنے کیلئے روایتی سویابین کے بجائے جی ایم او سویابین کی طرف جا رہا ہے۔ بھارت پہلے ہی جی ایم او سویابین کاشت کر رہا ہے۔ یعنی دنیا کی کل پیداوار کا تقریباً نوے فیصد سویابین اگلے دو تین سال میں جی ایم او ہوگا جبکہ ہم جی ایم او کے خلاف ڈھول پیٹ رہے ہیں اور ہمارا مؤقف یہ ہے کہ جی ایم او ٹیکنالوجی انسانی صحت کیلئے نقصان دہ ہے اس لئے جی ایم او اناج اور زرعی فصلات کی درآمد اور ملک میں اس جدید ٹیکنالوجی کے متعارف کروانے پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔ ویسے اس ملک میں انسانی جان کی حرمت اور قدر و قیمت کا جو معیار اور مقام ہے اس سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ تاہم اس وقت مسئلہ جذباتی سے زیادہ حقائق کے مطابق حل کرنا چاہئے۔
ہمارے ہاں ملاوٹ نہایت معمولی‘ بے معنی اور نظر انداز کیا جانے والا جرم ہے۔ ثابت سرخ مرچ اگر منڈی میں بارہ سو روپے فی کلو گرام ہے تو پرچون میں پسی ہوئی مرخ ہزار روپے کی ایک کلو گرام بک رہی ہے۔ یعنی ثابت مرچ پیسنے کے بعد اپنی پسائی اور اس دوران ہونے والی کمی کے باوجود پاؤڈر بن کر تیرہ چودہ سو روپے فی کلو فروخت ہونے کے بجائے ہزار روپے فی کلو فروخت ہو رہی تواس کی واحد وجہ صرف یہ ہے کہ ثابت مرچ میں ملاوٹ ممکن نہیں تھی اس لئے وہ مہنگی تھی اور جیسے ہی وہ پاؤڈر بنی اور اس میں ملاوٹ کی سہولت میسر آئی تو اس کی قیمت اصل سے بھی دو سو روپے فی کلو کم ہو گئی۔ چنے کی دال اور بیسن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بتانے کا مقصدیہ ہے کہ دھڑلے سے کھلے عام ملاوٹ ہو رہی ہے مگرکوئی پوچھنے والا ہے؟ یوریا اور موبل آئل کی جادوگری سے دودھ بنا کر فروخت کیا جاتا ہے کسی کو رتی برابر پروا نہیں ۔ ہمارے ہاں ملاوٹ نچلے درجے اور کم اہمیت کا حامل جرم ہے تاہم مغرب میں حساب اس کے بالکل الٹ ہے۔مغربی ممالک میں اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کا نہ کوئی تصور ہے اور نہ ہی معافی۔ ڈبے پر جو لکھا ہے اندر وہی ہوگا۔ میں نہ تو ماہرِ کیمیا ہوں اور نہ ہی کھانے والی چیزوں میں ضرر رساں اجزا کا تجزیہ کرنے اور اس کے بارے میں فیصلہ دینے کی اہلیت یا صلاحیت رکھتا ہوں مگر ایک بات جانتا ہوں کہ اگر جی ایم او سویابین یا مکئی میں انسانی جان کیلئے قابلِ نقصان حدتک زہریلے اجزاہوتے تو امریکہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ یہ مکئی اور سویابین کم از کم خود استعمال نہ کرتے۔ (جاری )