سعادت

کسی شاگرد کیلئے یقینا یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اس کی کسی کتاب‘ تحریر یا تصنیف کی پذیرائی اس کے اساتذہ کریں مگر کسی شاگرد کیلئے تو یہ ایک ناقابلِ فراموش اعزاز کی بات ہے کہ وہ اپنے استاد کی کسی تحریر یا تصنیف کی رونمائی کرے۔ میں بلاشبہ ایک نہایت ہی خوش قسمت شاگرد ہوں جسے اپنے ایک نامور استاد کی کتاب کی رونمائی کا شرف ہوا۔ اور پھر وہ استاد بھی ایساہو جس نے آپ کی شخصیت کو نکھارنے‘ سنوارنے اور بنانے میں اپنا حصہ ڈالا ہو تو آپ کا یہ فخر کئی گنا ہو جاتا ہے۔
مورخہ چھبیس نومبر کو فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کے دوسرے روز کا چوتھا سیشن کتابوں کی تقریبِ رونمائی پر مشتمل تھا‘اس سیشن میں چار کتابوں کی رونمائی کی تقریب تھی۔ ایک کتاب ”معارفِ غالب‘‘ تھی جو دیوانِ غالب کی شرح تھی اور اسے آج سے تقریباً پچھتر سال قبل مہر محمد صادق نے تحریر کیا تھا اور اب اس کا نیا ایڈیشن چھپا تھا۔ دوسری کتاب معروف انگریزی اور اردو شاعر حارث خلیق کی شاعری پر مشتمل ”حیراں سرِ بازار‘‘ تھی۔ حارث خلیق کی ایک نظم ”غلام اعظم مصلّی‘‘ پڑھنے کی شے ہے۔ تیسری کتاب میرے پسندیدہ افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے افسانوں کے پانچ مجموعوں اور ایک ناولٹ پر مشتمل تھی اور اپنے نام کی مناسبت سے واقعتاً ”حیرت کا باغ‘‘ ہی تھی۔ اس کتاب کے سلسلے میں یہ بتاتا چلوں کہ گزشتہ رات فیصل آباد آرٹس کونسل کے ہال میں ہونے والے نویں فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کا تیسرا سیشن مشاعرے پر مشتمل تھا‘ میں نے مشاعرہ پڑھتے ہوئے سامعین کی پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے محمد حمید شاہد کو مخاطب کرتے ہوئے مشاعرے میں اس کی موجودگی پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے یاد دہانی کرائی کہ گزشتہ کئی سال سے اس کی طرف سے واجب الوصول کتاب کی وصولی کا وقت قریب آن لگا ہے اور اب یہ ادھار چکتا ہو جاناچاہئے۔
قصہ اس اجمال کا یہ ہے کہ حمید شاہد کا ایک نہایت ہی شاندار افسانہ ہے ”مرگ زار‘‘۔ برسوں پہلے کسی ادبی پرچے میں پڑھا اور اس کا اسیر ہو گیا۔ وہ ادبی پرچہ بعد ازاں کہیں گم ہو گیا۔ اس پرچے کی تو خیر تھی مگر حمید شاہد کا افسانہ کھو جانے کا بڑا ملال ہوا۔ ایک دو سال کے بعدحمید شاہد ملا تو اس سے اس کتاب کا پوچھا کہ کہاں سے ملے گی۔ جواب میں حمید شاہد جو ایک نہایت بامروت انسان اور بہت شاندار دوست ہے کہنے لگا کہ بھلا آپ کتاب کیوں خریدیں گے؟ میں آپ کو خود دوں گا۔ اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ کتاب ختم ہو چکی تھی اور خود حمید شاہد کے پاس بھی شاید ایک ہی جلد تھی۔ سو یہ تقاضا برسوں چلتا رہا۔ میں ہنس کر تقاضا کرتا اور جواباً وہ ہنس کر جلد ہی کتاب بھجوانے کا وعدہ کر لیتا۔ مشاعرے والی رات میں نے مشاعرے کے دوران ہی مائیک پر کتاب کی وصولی کا مقدمہ پیش کر دیا۔ اگلے روز صبح اس کتاب کی رونمائی کے بعد حمید شاہد نے اپنے افسانوں کے پانچ مجموعوں اور ایک ناولٹ پر مشتمل تحریروں کا مجموعہ ”حیرت کا باغ‘‘جسے نہایت ہی معتبر پبلشر سنگ میل نے شائع کیا ہے اپنے دستخط کر کے مجھے دیا اور کہنے لگا کہ خدا کا شکر ہے آج آپ کا ادھار اترا اور میں سرخرو ہوا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ اس میں زیادہ کریڈٹ میری وصولی کی زوردار مہم کو جاتا ہے۔
چوتھی کتاب ”پھرتا ہے فلک برسوں‘‘ پروفیسر اصغر ندیم سید کے لکھے ہوئے خاکوں پر مشتمل تھی۔ میں تو مزے سے دوسری قطار میں بیٹھا ہوا ان کتابوں کے تعارف سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک سٹیج کو نہایت شاندار طریقے سے چلانے والی ڈاکٹر شیبا عالم‘ جو ایک شاندار منتظم بھی ہیں‘ نے اس کتاب کی رونمائی کیلئے میرا نام پکار دیا۔ پہلے پہل تو مجھے شک گزرا کہ شاید میں نے سننے میں غلطی کی ہے مگر ڈاکٹر شیبا عالم نے واقعی مجھے ہی اس کتاب کی رونمائی کیلئے بلایا تھا۔ دوسری قطار سے اُٹھ کر سٹیج تک جاتے ہوئے میری حیرانی خوشی میں تبدیل ہو چکی تھی اور بقول چچا غالب ؔ:
اسدؔ خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
میرے ساتھ بھی چچا والا معاملہ ہی تھا۔
جب میں 1973ء میں ایمرسن کالج میں گیارہویں جماعت میں داخل ہوا تو میرے انگریزی کے استاد خالد ناصر صاحب تھے اور اردو اصغر ندیم سید پڑھاتے تھے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے اصغر ندیم سید ایمرسن کالج کے شاید سب سے خوش لباس استاد تھے۔ ہمارے اردو کے یہ نوجوان پروفیسر روایتی استادوں سے تھوڑے مختلف تھے اور سکول سے کالج کی دنیا میں آنے والے میرے جیسے نئے پنچھیوں کیلئے ایسا غیر روایتی استاد باعثِ حیرت تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ہم استاد اور شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ دوستی کی ایسی منزل پر پہنچ گئے جہاں تھوڑی سی بے تکلفی کے ساتھ ایک سخت اور واضح قسم کی حد ِادب بھی موجود تھی۔ اصغر ندیم سید صاحب پر ابا جی مرحوم بڑے مہربان تھے اور ان سے وہ تب سے محبت کرتے تھے جب وہ ان کے پاس بطور طالب علم کتابیں لینے لائبریری میں آیا کرتے تھے۔ اصغر ندیم سید بھی ایمرسن کالج کے ہی فارغ التحصیل تھے۔
میں نے تب تک شاعری شروع کر دی تھی لیکن حتی الامکان کوشش کی تھی کہ اس کی بھنک ابا جی کو نہ پڑے۔ تب کالجوں میں بین الکلیاتی تقریبات ہوا کرتی تھی۔ سٹوڈنٹس یونینز کے زیر اہتمام ہفتۂ تقریبات ہوا کرتا تھا اور اس میں تقریری مقابلوں کے ساتھ ساتھ مشاعرہ بھی لازمی جزو تھا۔ میں تب بنیادی طور پر تو پنجابی مقرر تھا تاہم لگے ہاتھوں رات کو ہونے والے مشاعروں پر بھی ہاتھ صاف کرنے شروع کر دیے۔ ان بین الکلیاتی تقریبات میں ہونے والے مشاعرے میں مَیں حصۂ نظم میں شرکت کرتا تھا۔ شاعری توشروع کر دی تھی تاہم ابا جی کو تو بتانے کی بھی ہمت نہیں تھی کہ شاعری شروع کر دی ہے‘اصلاح لینے کا تو سوچ کر خون خشک ہو گیا۔ اس کام کیلئے اصغر ندیم سیّد سے رہنمائی لینی شروع کردی۔ اسی سلسلے میں ان کے گھر آنا جانا شروع ہو گیا۔ پھر یوں ہوا کہ میں یونیورسٹی چلا گیا اور اصغر ندیم سید کو ضیاء الحق کے زمانے میں بطورِ سزا شکر گڑھ ٹرانسفر کر دیا گیا۔
مشاعرے کے بعد کھانے پر ڈاکٹر شیبا عالم نے مجھے بتایا کہ وہ اصغر ندیم سید کی اہلیہ ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے بہت پہلے سے یہ بات معلوم ہے۔ پھر میں نے ہنس کر انہیں کہا کہ میں پرانی طرزکا آدمی ہوں اور زندگی کو اپنے ڈھب سے گزارنے کے چلن پر ہوں۔ آپ بے شک اس زمانے سے ہم آہنگ ہیں لیکن مجھ جیسے روایتی آدمی کیلئے آپ ”استانی جی‘‘ ہیں۔ مکوّل کلاں والے میرے میونسپل پرائمری سکول کے استاد ماسٹر غلام حسن کی اہلیہ بھی میرے لیے استانی جی تھیں اور آپ بھی میرے لیے استانی جی ہی ہیں۔ ڈاکٹر شیبا عالم میری بات سن کر مسکرائیں۔ مجھے گمان ہوا کہ انہوں نے میرا عطا کردہ لقب قبول کر لیا ہے۔
میں پورے چھ سال قبل پچیس نومبر 2016 ء کو اسی ہال میں موجود تھا اور مشاعرے سے پہلے افتتاحی تقریب‘ جس کا عنوان ”ادب اور فنون لطیفہ۔ آج سے کل تک‘‘ تھا‘ میں وہیل چیئر پر بانو قدسیہ تشریف لائیں اور اس لٹریری فیسٹیول کو اعتبار بخشا۔ یہ بانو آپا سے ہماری آخری ملاقات تھی‘دو ماہ نو روز بعد داستان سرائے کی یہ مکین ابدی دنیا کی مکین بن گئیں۔ اس بار فیصل آباد لٹریری فیسٹیول ایسا شاندار رہا کہ اس کیلئے ایک علیحدہ سے کالم درکار ہے۔ کشور ناہید‘ منیزہ ہاشمی‘ محمد حمید شاہد‘ ڈاکٹرناصر عباس نیّر‘ حارث خلیق‘ ڈاکٹر ضیاالحسن اور اصغر ندیم سید کی موجودگی نے اس ادبی میلے کو مزید معتبر بنا دیا اور اپنے استاد کی کتاب کی رونمائی نے مجھے جہانِ حیرت میں لاکھڑا کیا۔ ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ سعادت؟