دیکھا جو کھا کے تیر …

ہم نے طے کر رکھا ہے کہ اگر آسمان بھی گرتا ہے تو گر جائے‘ ہم نے اپنی روش نہیں بدلنی۔ پچھلی دفعہ بھی طالبان خود تھک ہار کر پیچھے ہٹ گئے تھے‘ ورنہ ہمارے اندر ان کے لیے محبت اور پیار ویسے ہی موجود تھا جیسے آج ہے۔ اگر نہ ہوتا تو پورا ملک کابل پر طالبان قبضے پر خوشی سے نہال نہ ہو رہا ہوتا۔ وزیراعظم عمران خان سے خوشی چھپائی نہ گئی اور انہوں نے اسے اپنی فتح سمجھا اور فرمایا کہ افغان طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ امریکہ اور یورپ کو شکست دے دی ہے۔
اس دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی ایک ہفتہ بھی انتظار نہ کر سکے اور اڑ کر کابل جا پہنچے جہاں ان کی چائے پینے کی تصویر پوری دنیا میں وائرل ہو گئی کہ لیں جی! ہم نے پورے نیٹو اور امریکہ کو شکست دے کر کابل پر اپنے بندے بٹھا دیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانوں کی جو نسل حامد کرزئی اور اشرف غنی ادوار میں جوان ہوئی اور اب ہزاروں خاندانوں کو اپنی جان بچانے کے لیے اپنا ملک چھوڑنا پڑا‘ انہوں نے پاکستان کو ہی اپنا دشمن سمجھا۔ ان نوجوان افغانوں کے جذبات کی بھلا کب پروا کی گئی۔ یہاں عام تاثر یہ ہے کہ افغانستان کا ہر پڑھا لکھا نوجوان ہم سے نفرت کرتا ہے اور اس کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے لہٰذا ہمیں ان کی فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم میں سے کسی نے نہ سوچا کہ کابل پر افغان طالبان کا قبضہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو مزید قوت بخشے گا کہ اگر وہ افغانستان لے سکتے ہیں تو ہم پاکستان کیوں نہیں۔
چند برس قبل پاکستان کے چند سابق فارن سیکرٹریز نے ایک مشترکہ مضمون لکھا تھا جس میں وہ حیران نظر آئے کہ پاکستان افغانستان کے تعلیم یافتہ اور پروگریسو عناصر کے ساتھ الائنس بنانے کے بجائے ان طالبان سے کیوں الائنس بنانے کو ترجیح دیتا ہے جو اپنی سوچ کی وجہ سے جدید دنیا سے بہت پیچھے ہیں؟ ہم کیوں پڑھی لکھی نوجوان نسل کو انگیج نہیں کرتے۔ اس طرح جب امریکی اور یورپی بہانہ ڈھونڈ رہے تھے کہ یہ سارا ملبہ کس پر ڈالیں‘ اس وقت بھی ہمارے وزیراعظم عمران خان نے فارن پریس میں مضمون لکھنا شروع کر دیے۔ امریکیوں کو افغانوں کی بہادری پر لیکچر دینے شروع کر دیے۔ یہ امریکیوں کا پرانا طریقۂ واردات ہے کہ وہ پہلے کسی ملک میں کسی ایشو کو لے کر وہاں گھستے ہیں۔ وہاں بڑے پیمانے پر تباہی‘ ہلاکتوں اور اپنا مقصد پورا کرنے کے بعد وہ ایسے نکل جاتے ہیں جیسے انہیں شکست ہو گئی ہو۔ امریکیوں نے حالیہ تاریخ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد جہاں بھی جنگیں شروع کیں‘ وہاں سے یہی کہہ کر نکلے کہ ہمیں شکست ہوگئی۔ افغانستان اور عراق اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ وہ ان اقوام کو برباد کرنے کے بعد کم از کم جاتے وقت ان کو یہ احساسِ برتری ضرور دے جاتے ہیں کہ جناب ہم ہارے‘ آپ جیت گئے ہیں۔
وہ تباہ حال قومیں اپنی تباہی‘ بربادی‘ قتل و غارت بھول کر نعرے مارتی رہتی ہیں کہ دیکھا ہم نے دنیا کی سپر پاور کو شکست دے دی۔ امریکہ پورے بیس سال تک افغانستان میں مرضی سے رہا۔ ملا برادر کو قطر سے قندھار بھجوایا۔ کابل طالبان کے حوالے کیا۔ اگر امریکہ نہ چاہتا تو ملا برادر قندھار اتر سکتے تھے یا ڈرون ایج میں طالبان کابل داخل ہو پاتے؟ اب افغان طالبان کی معاونت سے پاکستانی حکومت نے ٹی ٹی پی سے سیز فائر معاہدہ کیا۔ اس سیز فائر کے بدلے طالبان نے فرمائش کی کہ ہمارے وہ جنگجو رہا کیے جائیں جو پاکستان نے گرفتار کر رکھے تھے۔ یوں گڈ وِل دکھانے کیلئے سو سے اوپر طالبان جنگجوؤں کو رہا کر دیا گیا۔ اس پر بس نہیں کی گئی بلکہ ایسے طالبان کو بھی معاف کر دیا گیا جنہیں سینکڑوں پاکستانیوں کو قتل کرنے کے جرم میں عدالتیں پھانسی کی سزا سنا چکی تھیں۔ اب جو رپورٹس سامنے آرہی ہیں ان کے مطابق عمران خان‘ اُس وقت کے آرمی چیف اور اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کے پانچ ہزار جنگجوؤں اور چالیس ہزار کے قریب ان کے اہلِ خانہ کو‘ جو دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے دوران افغانستان چلے گئے تھے اور وہاں سے لڑ رہے تھے‘ انہیں پاکستان واپس لا کر بسایا جائے گا۔ یہ ہزاروں جنگجو وہاں رہ کر پاکستان کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ان سب کو واپسی کا راستہ دیا گیا کہ وہ چپکے سے واپس آ جائیں لیکن اپنے ساتھ اسلحہ نہ لائیں۔ ویسے اگر وہ اسلحہ ساتھ نہ بھی لاتے تو کیا ان کیلئے واپس پہنچ کر اسلحہ ارینج کرنا مشکل کام تھا؟ اگر پنجاب کے کسی گاؤں کا عام بندہ گھر بیٹھے قبائلی علاقوں سے توپ تک منگوا سکتا ہے تو وہیں کے لوگوں کو اسلحے کی کیا کمی ہے؟ ان طالبان کو راستہ دینے کیلئے افغانستان اور پاکستان کے بارڈر پر لگائی گئی باڑ کو کاٹا گیا تاکہ یہاں سے یہ طالبان جنگجو گزر کر پاکستان آ سکیں۔ اس باڑ کو لگانے کیلئے پاکستانی عوام کے اربوں روپے کے ٹیکسز خرچ کیے گئے کہ اس طرح ہماری سرحد محفوظ ہو جائے گی۔ ہمارے کئی فوجی جوانوں نے یہ باڑ لگاتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں کیونکہ ان پر سرحد پار سے افغان طالبان فائرنگ کرتے یا گولے برساتے تھے۔ اب اچانک وہ باڑ کاٹ دی گئی تاکہ وہ طالبان وہاں سے گزر کر اندر پاکستان داخل ہو سکیں۔ یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہو رہا تھا۔ ویسے یہ وہی باڑ ہے جس کے بارے میں محمود خان اچکزئی نے ایک جلسے میں پختونوں کو کہا تھا کہ وہ اسے اکھاڑ پھینکیں۔ اس پر شدید ردِعمل دیا گیا تھا لیکن اب سرکاری سرپرستی میں وہ باڑ کاٹ دی گئی۔ جب تک طالبان پورے کے پورے پاکستان کے اندر داخل نہیں ہوگئے انہوں نے سیز فائر جاری رکھی۔ جونہی وہ سب پاکستان خیر خیریت سے پہنچ گئے اور انہوں نے اپنے امیر تک مقرر کر لیے تو دو ماہ پہلے سیز فائر ختم کرکے پاکستان آرمی اور پاکستانیوں پر حملوں کا اعلان کر دیا۔
پچھلے دو ماہ میں انہوں نے درجنوں حملے کیے بلکہ سوات‘ مالاکنڈ اور وزیرستان میں پرامن پختونوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جب ان واپس آنے والے طالبان نے وہاں دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا اور انہیں بھتے کی پرچیاں ملنا شروع ہوئیں۔ پورے ملک میں خوف کی لہر دوڑ گئی کہ دوبارہ وہی دور لوٹ رہا ہے جب سوات میں آپریشن کرنا پڑا تھا۔ پاکستانی پہلے ہی ہزاروں لاشیں اُٹھا چکے تھے۔ اب پشاور میں جس پیمانے پر تباہی مچی ہے‘ بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوئی ہیں اور سو سے زیادہ خاندان تباہ ہوئے ہیں‘ اس سے لوگوں کو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سابق قیادت جو ان طالبان کو واپس لائی تھی‘ کے اس فیصلے کے کیا بھیانک نتائج نکلے تھے۔ اگر ایسا فیصلہ کرنا بھی تھا تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے‘ پوری قوم اور میڈیا کے سامنے ایشو رکھتے اور اگر سب راضی ہوتے تو واپسی کا سوچا جاتا۔ لیکن بتایا جارہا ہے یہ سب فیصلہ وزیراعظم ہاؤس کے لان میں بیٹھ کر عمران خان‘ اُس وقت کے آرمی چیف اور اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی نے کیا تھا۔کیا کبھی آپ نے تاریخ میں پڑھا کہ کسی ملک کے‘ جس دشمن کے ہاتھوں اسّی ہزار لوگ لقمۂ اجل بنے ہوں‘ فوجی اور سپاہی شہید ہوئے ہوں‘ اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہو اور پورا ملک برباد ہوگیا ہو‘ اسی دشمن کو دوبارہ واپس لا کر اپنے ملک میں بسایا دیا جائے اور وہ کچھ عرصے بعد دوبارہ اسی ریاست پر حملہ آور ہو جائے جو انہیں واپس لائی ہے؟ویسے پختونوں کو سابق وزیراعظم عمران خان سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے کیسے ان ہزاروں جنگجوؤں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دی جن کے ہاتھوں پر اے پی ایس کے ڈیڑھ سو بچوں کا خون تھا۔ اس پر بس نہیں کی گئی بلکہ سزائے موت پانے والے طالبان کو معافی دلا کر رہا بھی کر دیا گیا۔ بے چارے پختونوں کے ساتھ بھی بقول شاعر یہی کچھ ہوا ہے:
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی