معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ساؤتھ افریقہ
جنوبی افریقہ ایک دل چسپ ملک ہے‘ افریقہ کے انتہائی جنوب میں واقع ہے‘ موسم آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور ارجنٹائن کی طرح باقی دنیا سے الٹ ہے۔
ہمارے ملک میں جب کڑاکے کی گرمی پڑتی ہے تو جنوبی افریقہ میں اس وقت سردی ہوتی ہے اور ہماری سردیوں میں ساؤتھ افریقہ میں گرمی ہوتی ہے‘ یہ ملک 1488 میں پرتگالیوں نے دریافت کیا تھا لیکن یہاں پہلی کالونی ہالینڈ کے باشندوں (ڈچ) نے بنائی‘ ڈچ 1652میں کیپ ٹاؤن پہنچے اور آباد ہونا شروع کر دیا‘ یہ زمین دار یا کسان تھے‘ ڈچ زبان میں کسان کو بورز (Boers) کہتے ہیں‘ یہ لوگ آج بھی بورز کہلاتے ہیں۔
ڈچ کی دیکھا دیکھی جرمن اور فرنچ بھی آ گئے اور ان تینوں نے مل کر یہاں ایک نئے کلچر اور زبان کی بنیاد رکھ دی‘ یہ کلچر اور یہ زبان افریقانو کہلاتی ہے‘ افریقہ سیاہ فام باشندوں کی سرزمین تھی‘ یہ لوگ 9 مختلف قبائل میں تقسیم تھے‘ زولو قبیلہ سب سے بڑا اور مضبوط تھا لیکن یہ باہمی تقسیم اور ٹیکنالوجی کے ہاتھوں مار کھا گئے اور پسپا ہوتے چلے گئے‘ برطانوی باشندے 1795میں آئے اور 1820میں یہاں اپنی کالونی قائم کرلی۔
یہ اپنے ساتھ ملائیشیا‘ انڈونیشیا اور تھائی لینڈ سے ہزاروں لوگ لے کر آئے تھے‘ یہ لوگ ملائی کہلانے لگے اور ملائی باشندوں نے مقامی سیاہ فام باشندوں کو کافر کہنا شروع کر دیا اور 1850 میں ہندوستانی باشندے جنوبی افریقہ پہنچنے لگے‘ یہ لوگ ریلوے میں ملازم تھے چناں چہ افریقانو نے انھیں قلی کہنا شروع کر دیا‘ یہ القابات آج بھی جنوبی افریقہ میں مستعمل ہیں تاہم کسی کو کافر‘ قلی یا بورز کہنا گالی سمجھا جاتا ہے اور اس کی چھ ماہ سزا ہے۔
جنوبی افریقہ میں ہندو اور مسلمان کاروبار پر چھائے ہوئے ہیں‘ سیاہ فام باشندے کاروبار کی صلاحیت سے محروم ہیں چناں چہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں پاکستان‘ بنگلہ دیش یا بھارت سے نوجوان سرحد پار کر کے پہنچتے ہیں‘ چھوٹی سی دکان کھولتے ہیں اور دو تین مقامی لوگوں کو ملازم رکھتے ہیں اور مالک بن کر بیٹھ جاتے ہیں‘ پاکستانی یہاں خوش حال بھی ہیں اور مطمئن بھی‘ ملک کی نوے فیصد موبائل فون شاپس پاکستانیوں کی ہیں‘ آپ کسی بھی موبائل فون شاپ پر چلے جائیں آپ کی وہاں پاکستانیوں سے ملاقات ہو جائے گی۔
ببر شیر(لائین کنگ) جنوبی افریقہ کی نسل ہے‘ ان لوگوں نے جینیاتی تبدیلیوں سے مختلف رنگوں کے شیر بنا لیے ہیں‘ ہم نے جوہانس برگ میں سفید شیروں کا خاندان بھی دیکھا‘ کالے اور پیلے شیر بھی موجود ہیں‘دنیا کے پانچوں بڑے جانور (بگ 5)ہاتھی‘ رائنو‘ کیپ بھینس‘ ببر شیر اور چیتا یہاں پائے جاتے ہیں‘ ٹارزن کا تعلق بھی جنوبی افریقہ سے تھا‘ وہ خاندان کے ساتھ کیپ ٹاؤن سے لندن جا رہا تھا‘راستے میں جہاز تباہ ہو گیا اور اسے گوریلے اٹھا کر لے گئے۔
باقی کہانی سے آپ واقف ہیں‘ مسلمان دو فیصد ہیں لیکن یہ سیاسی اور معاشی طور پر اتنے طاقتور ہیں کہ انھوں نے حلال کو ملک کی پالیسی بنوا دیا ہے لہٰذا یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں چکن اور مٹن کے ساتھ ساتھ پانی کی بوتل پر بھی حلال کی مہر لگی ہوتی ہے‘ گوروں کی حکومت نے 1948ء میں اپارتھائیڈ (نسل پرستی) کو قانون بنا دیا جس کے بعد سیاہ فام باشندوں کے بنیادی انسانی حقوق تک چھین لیے گئے۔
یہ گوروں کی آبادی میں بھی نہیں جا سکتے تھے اور ان کے ریستورانوں‘ بسوں‘ ٹرینوں اور دکانوں میں بھی داخل نہیں ہو سکتے تھے‘ اقوام متحدہ نے ردعمل میں جنوبی افریقہ پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں‘ یہ حکم کبڑے کو لات ثابت ہوا اور انھوں نے اپنی ضرورت کی ہر چیز خود پیدا کرنا شروع کر دی‘ یہ لوگ خوراک‘ فروٹس اور صنعت میں بھی خودکفیل ہو گئے اور انھوں نے کوئلے سے پٹرول اور ڈیزل بھی بنانا شروع کر دیا‘ یہ آج بھی اقتصادی لحاظ سے خودکفیل ہیں‘ یہاں صرف دو کلاسیں ہیں‘ اپرکلاس یا پھر لوئر کلاس‘ مڈل کلاس سرے سے موجود نہیں‘ آپ ساؤتھ افریقہ میں امیر ہوں گے یا پھر انتہائی غریب‘ ملک کا اسٹینڈرڈ یورپی ہے۔
پورے ملک میں بڑی بڑی ہائی ویز‘ ہوٹلز‘ ریستوران‘ ایئرلائینز‘ منڈیاں‘ کانیں اورایکڑوں پر محیط ویلاز ہیں‘ یہ تمام سہولتیں یورپ کے مقابلے میں سستی ہیں چناں چہ آزادی کے بعد جو بھی گورے اپنے ملکوں میں گئے وہ دوبارہ واپس آ گئے اور یہاں کوالٹی لائف کو انجوائے کرنے لگے۔
یہودیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ جہاں سے نکلنا شروع کر دیں آپ بھی فوراً وہاں سے بھاگ جائیں اور یہ جہاں آنے لگیں آپ بھی وہاں جا کر بس جائیں اور ساؤتھ افریقہ اس کی تازہ ترین مثال ہے‘ 1990 کی دہائی میں یہاں سے یہودی نقل مکانی کر گئے تھے لیکن یہ اب واپس بھی آ چکے ہیں اور بڑے بڑے کاروباروں کے مالک بھی ہیں‘ یہ یورپ کے حالات کو یورپ کے باشندوں سے پہلے بھانپ گئے تھے لہٰذا یہ ساؤتھ افریقہ پہنچ رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں 1850تک کوئی تحریری زبان نہیں تھی‘ یورپی باشندوں نے آ کر تحریری زبان کی بنیاد رکھی اور آج ساؤتھ افریقن بھی گوروں کی کتابوں کے ذریعے اپنی زبان پڑھ رہے ہیں‘ بھارت کی میاں فیملی امیرترین ساؤتھ افریقن ہے‘ یہ لوگ مسلمان ہیں اور قیام پاکستان سے پہلے جنوبی افریقہ آئے تھے‘ یہ لاتعداد کاروبار کر رہے ہیں مگر گوشت کے کاروبارپر ان کی مناپلی ہے‘ جوہانس برگ سے پٹوریا کے درمیان 22 کلومیٹر تک پھیلا رقبہ ان کی ملکیت تھا۔
اس پر اب اربوں ڈالر سے درجنوں ہاؤسنگ اسکیمیں بن چکی ہیں‘ آپ اس سے ان کی دولت اور اثرورسوخ کا اندازہ کر لیجیے‘ ساؤتھ افریقہ کے لوگ ٹریفک سگنل کو روبوٹ‘ پٹرول پمپ کو گیراج اور ویگن کو ٹیکسی کہتے ہیں‘ گوروں‘ کالوں اور ملائی لوگوں کے اختلاط سے ایک نئی نسل پیدا ہوئی ہے‘ یہ لوگ کلرڈ کہلاتے ہیں اور ان کی آبادی بارہ سے 15 فیصد کے درمیان ہے اور یہ خود کو ساؤتھ افریقہ کے اصل باشندے اور مالک قرار دیتے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے باقی تمام لوگ باہر سے آئے تھے‘ ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں لہٰذا ہم مالک ہیں‘ اپارتھائیڈ کے زمانے میں قانون ہوتا تھا ملک کا ہر کالا اپنے ہاتھ میں ایک ڈائری رکھے گا اور وہ اس ڈائری میں اپنی اس دن کی تمام مصروفیات لکھے گا‘ یہ ڈائری کالوں کی زندگی کا لازمی حصہ ہوتی تھی اور جو اس قانون کی خلاف ورزی کرتا تھا پولیس اسے تشدد کا نشانہ بھی بناتی تھی اور جیل میں بھی پھینک دیتی تھی۔
رابرٹ سوبوکے (Robert Sobukwe) ساؤتھ افریقہ کا پہلا شخص تھا جس نے اس قانون سے انکار کیا‘ وہ 21 مارچ 1960ء کو ڈائری کے بغیر گھر سے نکلا‘ پولیس نے اسے گرفتار کر لیا‘ یہ خبر پھیلی اور شہر کے تمام کالوں نے پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کر لیا‘ سوبوکے کو بعدازاں رابن آئی لینڈ میں بند کر دیا گیا‘ اس کا سیل عام جیل سے باہر کتوں کے پنجروں کے درمیان تھا‘ سوبوکے کو برسوں اس سیل میں رکھا گیا‘ وہ جیل کے دورانیے میں کسی سے گفتگو نہیں کر سکا۔
سیل کے دائیں بائیں گارڈز کھڑے کیے جاتے تھے لیکن انھیں پابند کیا جاتا تھا وہ سوبوکے سے بھی بات نہیں کریں گے اور ایک دوسرے سے بھی مخاطب نہیں ہوں گے یوں سوبوکے الفاظ کو ترس گیا‘ یہ خبر باہر نکلی تو احتجاج شروع ہو گیا‘ حکومت نے ردعمل میں اسے اخبارات پڑھنے اور ریڈیو سننے کی اجازت دے دی لیکن یہ رعایت زیادہ خوف ناک سزا ثابت ہوئی‘ سوبوکے اب معلومات کا خزانہ تھا۔
اس کے پاس دنیا جہاں کی خبریں ہوتی تھیں لیکن وہ کسی شخص کو یہ خبریں سنا نہیں سکتا تھا اور یہ خوف ناک اذیت تھی چناں چہ اس نے چند دن بعد ریڈیو سننا اور اخبار پڑھنا بند کر دیے‘ وہ روز خود کو کہتا تھا ’’بے خبری دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے‘‘ مجھے رابن آئی لینڈ میں رابرٹ سوبوکے کا سیل دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا۔
ساؤتھ افریقہ کے پاکستانی کام یابی کی حیران کن داستانیں ہیں‘ ڈاکٹر کاشف مصطفی کے گھر ایئرفورس کے ایک سابق آفیسر سے ملاقات ہوئی‘ وہ نوکری کے سلسلے میں زمبابوے آئے‘ ایئرفورس سے استعفیٰ دیا اور زمبابوے میں کاروبار شروع کر دیا‘ ارب پتی ہو گئے لیکن جب زمبابوے میں ’’ری سیشن‘‘ آیا تو یہ ساؤتھ افریقہ آ گئے اور چند برسوں میں ملک کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک بن گئے۔
ہندوستانی مسلمانوں نے 1794میں کیپ ٹاؤن میں پہلی مسجد بنائی تھی وہاں اب سیکڑوں کی تعداد میں مسجدیں ہیں اور زیادہ تر پاکستانیوں کے زیرانتظام ہیں‘ پاکستانی ایک دوسرے سے رابطے میں بھی رہتے ہیں‘ ہر ویک اینڈ پر کسی نہ کسی خاندان میں دعوت ہوتی ہے اور پاکستانی ایک دوسرے سے ملتے ہیں‘ سیاحت بڑی انڈسٹری ہے‘ پوری دنیا سے لوگ یہاں آتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں‘ شہر سے باہر سیکڑوں ایکڑ کے فارم ہاؤسز ہیں اور گورے ان میں رہتے ہیں‘ سیاہ فام مہذب اور خدمت گزار ہیں‘ یہ جسمانی کاموں کے ایکسپرٹ ہیں لیکن دماغی کاموں سے مکمل طور پر فارغ ہیں۔
سیکیورٹی اور چوری چکاری کی وارداتیں بھی ہوتی ہیں لہٰذا ہر گھر میں گرل اور سیفٹی وائر لگی ہے‘ لوگ شام کے بعد گھروں سے نہیں نکلتے‘ ریستورانوں پر کھانے کی روایت ہے‘ لوگ ہفتے میں کم از کم ایک دن باہر کھانا ضرور کھاتے ہیں۔
اولیاء اللہ اور بزرگوں کے مزارات کو ’’کرامت‘‘ کہتے ہیں‘ ہمیں کیپ ٹاؤن میں درجنوں کرامتوں پر جانے کا اتفاق ہوا‘ پاسپورٹ اور شہریت مشکل سے ملتی ہے لیکن حکومت غیرقانونی رہائش پر اعتراض نہیں کرتی چناں چہ ہر سال لاکھوں لوگ غیرقانونی طریقوں سے ساؤتھ افریقہ آتے ہیں اور کاروبار شروع کر دیتے ہیں‘ پاکستانی زیادہ ترغیر قانونی ہیں‘ یہ زمبابوے کے ذریعے ساؤتھ افریقہ میں داخل ہوتے ہیں لیکن جلد ہی اپنی جگہ بنا لیتے ہیں‘ بہرحال قصہ مختصر ساؤتھ افریقہ ایک دل چسپ ملک ہے اور آپ اگر افورڈ کرسکتے ہیں تو آپ کو اسے وزٹ کرنا چاہیے۔