سوات کہانی … (2)

مجھے سال تو یاد نہیں؛ تاہم یہ 1991-92ء کی بات ہو گی جب میں دونوں چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ ایک بار پھر سوات گیا۔ اس سال جا کر دیکھا تو کالام میں دریا کی سمت پر ہوٹل بننے کی ابتدا ہو چکی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دریائے سوات کے بہاؤ کے اندر بنیادیں بنانے والا پہلا ہوٹل ”منانوان‘‘ تھا۔ پھر تو اس کے بعد گویا ایسی لائن لگی کہ گنتی ہی بھول گئی۔
اپریل 1986ء میں جب ہم فلک ناز ہوٹل کے واحد مقیم تھے تو رات کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ ہوٹل میں ایک کمرے کے علاوہ باقی سارے کمبل بیکار پڑے تھے۔ ہم تین تین کمبل لے کر سوتے تھے۔ صبح اٹھ کر دریا کے پل کے پار اوشو جنگل المعروف کالام پلین فارسٹ کی راہ لیتے۔ ایک روز دریائے سوات کے ساتھ چلتے چلتے اس میں ملنے والے دریائے اتروڑ کی طرف نکل گئے۔ جگہ جگہ برف پڑی ہوئی تھی۔ کالام سے آگے بائیں طرف چلے جائیں تو دریائے اتروڑ کے ساتھ ساتھ آگے اتروڑ اور پھر گبرال آ جاتے ہیں۔ تیسرے دن آگے جانے کی ٹھانی تو پتا چلا کہ گبرال کا راستہ بند ہے‘ لہٰذا مٹلتان جانے کا فیصلہ کیا اور پھر ہم جیپ لے کر ادھر چل پڑے۔ راستے میں دریائے اوشو کا پل عبور کرتے ہوئے نیچے دائیں طرف نظر پڑی تو ایک ہوٹل دکھائی دیا۔ دریا کا منظر اور اس کے عین کنارے پر اس ہوٹل کو دیکھ کر جیپ رکوائی اور اسے کہا کہ وہ ہمیں ادھر ہی اتار دے۔ اس نے حیرانی سے پوچھا: ادھر اوشو میں؟ ابھی مٹلتان تھوڑا آگے ہے۔ میں نے کہا کہ وہ ہمیں یہاں سے کل دوپہر آ کر لے لے اور مٹلتان لے جائے۔ ہم ادھر اتر کر ہوٹل میں چلے گئے۔ تب یہ اس جگہ اکلوتا ہوٹل تھا۔ گزشتہ سال گیا تو اس پرانے ہوٹل کے سامنے دریا کے دوسرے کنارے پر تین چار منزلہ کئی ہوٹل بن چکے تھے۔ 1978ء میں جب ہم مہوڈنڈ جھیل گئے تو مٹلتان سے آگے سڑک گلیشیر نے بند کر رکھی تھی وہاں سے پیدل سفر کرکے مہوڈنڈ گئے۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ مٹلتان کی طرف آنے کا مقصد تھا کہ شاید مہوڈنڈ کا راستہ بہتر ہو چکا ہوگا مگر ہم بمشکل مٹلتان تک ہی پہنچ پائے۔ ایک دو چھوٹے چھوٹے ہوٹل تھے اور ان میں سب سے نیا غنچہ ہوٹل تھا۔ ہم اس میں ٹھہر گئے۔ رات باورچی نے ماش کی دال ایسی بنائی کہ مزہ آ گیا۔ اگلے روز آگے جانے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا راستہ ابھی بند ہے۔ ہوٹل کے سامنے پہاڑ کی ڈھلوان پر چھوٹے چھوٹے پھولوں سے بھرا ہوا ایک تختہ۔ پیلے اور کاسنی پھولوں کی گویا ایک چادر بچھی ہوئی تھی۔ اس سے بڑھ کر وسیع پھولوں کا تختہ پھر دیوسائی میں دکھائی دیا۔ دور سے ایسے لگتا تھا کہ رنگدار قالین بچھا ہوا ہے۔ قریب جائیں تو پھول اتنے چھوٹے چھوٹے کہ انگلی کی پور سے کیا بڑے ہوں گے مگر اتنے بے تحاشا کہ عقل دنگ رہ جائے۔
درال ڈنڈ جانے کی خواہش دل میں رہی اور ٹانگوں نے گھنٹوں پر مشتمل مشقت بھرے سفر پر ساتھ دینے سے گویا صاف انکار کر دیا۔ پھر گھٹنوں نے خواہشات کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ اب یادیں ہیں جو اس مسافر کو مہوڈنڈ کے کنارے ایک پتلے سے خیمے میں گزاری ہوئی رات کی کہانی سناتی ہیں۔ کبھی کبھی تو حیرانی ہوتی ہے کہ کیا وہ میں ہی تھا جو منیر چودھری کے ساتھ کمر پر ایک سیک لادے پینتیس چالیس کلومیٹر تک پیدل چل لیتا تھا اور صبح پھر ایسے تازہ دم اٹھتا تھا کہ کم ہمت گھوڑا بھی رشک کرے۔ پھر شکر ادا کرتا ہوں کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جنہوں نے مالکِ کائنات کی اس دنیا کی رنگینیوں کو اس قدر بھی دیکھا ہو گا؟ ہم آوارہ گرد تو یقینا تھے لیکن باقاعدہ ”ٹریکر‘‘ بہرحال نہیں تھے۔ بہت سی مجبوریاں ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ نہ درال ڈنڈ جا سکے اور نہ ہی ایک اور خوبصورت جھیل بشی گرام ہی دیکھ سکے۔ مدین سے سڑک کی دائیں طرف سے آ کر دریائے سوات میں ملنے والا ایک اور بڑا نالا بشی گرام اسی جھیل سے نکلتا ہے۔ اس جھیل کو جانے کے تقریباً تین راستے ہیں۔ اب تو پتا نہیں کہ آسانی کا کیا عالم ہے لیکن تب تینوں راستوں میں آخر پر چھ سات گھنٹے پیدل چلنا پڑتا تھا۔ یہی حال کُو جھیل کا اور وادیٔ سوات میں بکھری ہوئی بے شمار جھیلوں کا ہے جن میں سے بہت سی جھیلوں کا شاید ہم نے نام بھی نہیں سنا؛ تاہم سید گئی‘ کنڈول‘ ڈیروڈنڈ‘ نیل سر اور گودر وغیرہ تک پہنچنا بھی بہت مشکل ہے۔
مدین بھی چند عشرے پہلے چھوٹے سے بازار اور گنتی کے ہوٹلوں پر مشتمل قصبہ تھا جو مینگورہ کے بعد بحرین سے پہلے دریائے سوات کے کنارے پر ہے۔ اس قصبے میں سڑک دریا کے دائیں طرف ہے؛ تاہم بعد میں بائیں طرف چلی جاتی ہے۔ ادھر بشی گرام جھیل سے نکل کر درمیان میں کئی دیگر نالوں کے مل جانے کے بعد بشی گرام نالا بھی گویا ایک چھوٹے دریا کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور پہاڑی دریاؤں کی عادت کے عین مطابق زور و شور سے غراتا ہوا اور جھاگ اڑاتا ہوا دریائے سوات میں مل جاتا ہے۔ حالیہ بارشوں سے آنے والے سیلاب میں وادیٔ سوات جس طرح تباہ و برباد ہوئی ہے اس میں دریائے سوات کے ساتھ اس میں شامل ہونے والے سارے پہاڑی دریا اور ندی نالے بھی اتنے ہی حصے دار ہیں۔ دریائے گبرال‘ دریائے اتروڑ‘ دریائے اوشو‘ درال خواڑ اور بشی گرام نالا۔ یہ سب اپنے ساتھ پانی تو لائے ہی لیکن ساتھ جو چھوٹے بڑے پتھر اور ریت لائے‘ ان کی گویا کوئی مثال نہیں ملتی۔ دریا کے ساتھ واقع آبادی کے گھر اور دکانیں تو پانی کے ریلے کے آگے ریت کی دیوار سے بھی زیادہ بودے ثابت ہوئے لیکن جو گھر بچ گئے ان کا یہ حال ہے کہ بلامبالغہ گھروں کی نیچے والی ایک دو منزلیں ریت میں اس طرح دب گئی ہیں کہ ان گھروں کی پہلی یا دوسری منزل اب گراؤنڈ فلور بن گئی ہے۔
دریا کے ساتھ اتنی ریت، مٹی اور پتھر آئے ہیں کہ زمین پر باقاعدہ دس بارہ فٹ بلکہ بعض جگہوں پر اس سے بھی زیادہ موٹی ایک نئی تہہ وجود میں آ گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب نئی وجود میں آنے والی زمین کی سطح پہلی سطحِ زمین سے کئی فٹ بلند ہو چکی ہے لیکن دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ اوپر سے پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ کر آنے والی ریت اور پتھروں نے دریائے سوات اور اس میں شامل ہونے والے سارے پہاڑی دریاؤں اور ندی نالوں کی تہہ بھی بارہ پندرہ فٹ تک بلند کر دی ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ اب وادیٔ سوات کے دریا بھی اپنی پرانی سطح سے بارہ پندرہ فٹ تک بلند ہو چکے ہیں۔ اس سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آئندہ سیلاب کی صورت میں ان دریاؤں میں آنے والا پانی کا ریلا اگر حالیہ ریلے سے کم بھی ہوا‘ تب بھی وہ اس سے کئی فٹ زیادہ بلند ہو گا اور جو گھر‘ دکانیں اور ہوٹل اس بار تباہی سے بچ گئے ہیں وہ اگلی بار اس کا سامنا کریں گے۔
چند سال پہلے بھی دریائے سوات میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچائی تھی مگر وہ حالیہ تباہی کے مقابلے میں گو کہ بہت معمولی تھی مگر یار لوگوں نے اس تباہی سے کوئی سبق لینے کے بجائے وہی کچھ دوبارہ دہرایا جو ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ دریا کے اندر بننے والے ہوٹل خود تو تباہ ہوئے ہی‘ مگر ان کے باعث پانی کے بہاؤ میں آنے والی وقتی رکاوٹ نے جمع شدہ پانی کی مقدار بڑھا دی اور ان ہوٹلوں کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد جمع شدہ پانی کے نسبتاً بڑے ریلے نے زیادہ بڑی تباہی مچائی۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ان تعمیرات کی خلافِ قانون اجازت دینے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ اب امیر مقام جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی تو لیگی رہنما شور مچائیں گے کہ سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ اس ملک میں پیدا ہونے والی ہر خرابی کے پیچھے زور آور ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کی راہ میں درجنوں رکاوٹیں ہیں اور ان رکاوٹوں کو ہٹانے پر مامور سبھی ادارے اور افراد ان خرابیوں کے حقیقی ذمہ دار ہیں اور ان سے فیض یاب ہونے والے بھی یہی ہیں تو پھر بھلا خرابیاں کیسے دور ہو سکتی ہیں ؟ (ختم)