معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ٹیلی ویژن اور موبائل
’’بس ایک منٹ رکیے گا‘‘ وہ بولتے بولتے رکے اور ریموٹ کنٹرول سے والیم اونچا کر دیا‘ ٹیلی ویژن پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی ’’عمران خان کی آڈیو لیکس کا پارٹ ٹو آگیا‘‘ اور وہ تن اور من سے اس خبر میں غوطہ زن ہو گئے‘ اس دوران فون بھی بجے‘ پی اے فائلز بھی لے کر آیا‘ ہم نے چائے بھی ختم کر لی اور ان کے ڈرائیور نے ان کا لنچ باکس کھول کر کھانا بھی میز پر لگا دیا مگر صاحب ٹیلی ویژن اسکرین سے چپکے رہے‘ خبر آہستہ آہستہ بریکنگ سے تجزیے اور پھر مخالف پارٹیوں کے ردعمل پر شفٹ ہو رہی تھی اور صاحب بھی اس خبر کے بہاؤ میں بہتے چلے جا رہے تھے۔
میں نے ایک دو مرتبہ گھڑی کی طرف دیکھا اور کھنگار کر انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ خبر کے اثر سے باہر نہ آ سکے بہرحال خدا خدا کر کے ایک دوسری پریس کانفرنس شروع ہوئی اور وہ ریموٹ کنٹرول کا میوٹ کا بٹن دبا کر ہماری طرف متوجہ ہو گئے۔
وہ اس کے بعد دیر تک سرکھجاتے رہے اور وہ بات یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے جہاں سے گفتگو کا سلسلہ ٹوٹا تھا‘ میں نے انھیں یاد کرایا‘ آپ فرما رہے تھے ’’ملکی حالات اس قسم کے ہیں کہ میں آپ کو مشینری امپورٹ کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا‘‘ وہ مسکرائے‘ ماتھے پر ہاتھ مارا اور جذباتی آواز میں بولے ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا‘ ڈالر کی پرائس تیزی سے اوپر نیچے ہو رہی ہے لہٰذا آپ کو اس وقت مشینری نہیں منگوانی چاہیے‘ آپ فیکٹری کا کام روک دیں۔
چیزوں کو سیٹل ڈاؤن ہونے دیں اور پھر کام شروع کریں‘ اس طرح آپ ۔۔۔۔۔‘‘ ابھی ان کی بات درمیان میں تھی کہ ان کا موبائل فون بج گیا‘ انھوں نے فوراً فون اٹھایا اور سر کہہ کر گفتگو شروع کر دی‘ فون کی دوسری سائیڈ پر ان کے سینئر آفیسر تھے‘ وہ ان سے ہدایات لینے لگے اور فون بند ہوتے ہی انھوں نے اپنے پی اے کو بلایا‘ اسے ہدایات دیں اور پھر آفیسر کے احکامات کے مطابق فون پر مصروف ہو گئے۔
انھوں نے دس منٹ میں دس بارہ لوگوں سے رابطہ کیا اور ان سے معلومات لیتے اور دیتے رہے‘ اس دوران وہ ’’واٹس ایپ‘‘ میسجز بھی دیکھتے اور سنتے رہے‘ وہ اس جھنجٹ سے فارغ ہوئے تو ایک بار پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا ’’اسلام آباد ہر دوسرے دن بند ہو جاتا ہے‘ ان حالات میں حکومت کیسے چل سکتی ہے؟‘‘ میں نے لقمہ دیا ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن ہم فیکٹری اور مشینری کی امپورٹ پر بات کر رہے تھے‘‘ انھوں نے ایک بار پھر ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا ’’اُف آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
میں بات بھول گیا تھا‘ ہاں تو میں کہہ رہا تھا اس وقت مشینری منگوانا بہت بڑی بے وقوفی ہے‘آپ ملک کے حالات دیکھیے‘‘ وہ رکے‘ ٹی وی کی طرف دیکھا اور بولے ’’ آپ پلیز ایک منٹ رکیے گا‘‘ اور ساتھ ہی ریموٹ کنٹرول اٹھا کر ٹی وی کی آواز ’’ان میوٹ‘‘ کر دی‘ ٹی وی پر اب بنی گالہ میٹنگ کی بریکنگ نیوز چل رہی تھی‘ عمران خان نے اکتوبر میں لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا تھا اور صاحب نے اب اس خبر کے غار میں چھلانگ لگا دی تھی۔
یہ پچھلے ہفتے کا واقعہ ہے‘ میرے ایک دوست ادویات کا نیا یونٹ لگا رہے ہیں‘ مشینری کا آرڈر ہو چکا تھا‘ ایل سی بھی کھل چکی تھی لیکن حکومت مشینری امپورٹ کرنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی‘ وہ مجھے اپنے ساتھ جوائنٹ سیکریٹری کے دفتر لے گیا‘ میرے دوست نے بات شروع کی لیکن صاحب بات مکمل ہونے سے پہلے ٹیلی ویژن اسکرین میں گھس گئے۔
وہاں سے واپس آئے تو ان کی توجہ موبائل فون نے کھینچ لی‘ وہ اس سے فارغ ہوئے تو ایک بار پھر ٹیلی ویژن اور وہاں سے سیدھے موبائل فون میں آ گرے‘ ہم ایک گھنٹہ ان کے پاس بیٹھے رہے لیکن اس گھنٹے میں ہماری بات مکمل ہو سکی اور نہ انھوں نے کوئی دفتری کام کیا لیکن ان کی فرسٹریشن‘ ٹینشن اور اینگزائٹی آسمان کو چھو رہی تھی‘ ہم مایوس ہو کر واپس آ گئے‘ میں نے واپسی پر اپنے دوست سے پوچھا ’’کیا تمہارے آفس میں ٹیلی ویژن ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’ہاں ہے‘‘ میں نے اسے مشورہ دیا ’’تم جاتے ہی اسے اٹھا کر باہر پھینک دو‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر کہا ’’بالکل ٹھیک‘‘ میں نے کہا ’’اور اس کے بعد پورے دفتر کے ٹیلی ویژن اٹھوا دو‘‘ اس نے کہا ’’ڈن یہ بھی ہو جائے گا‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’اور دفتر کے تمام لوگوں کے موبائل فون بھی بند کرا دو‘‘ اس نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہا ’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔
ہم 21 ویں صدی میں رہ رہے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’کیا امریکا‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور کینیڈا 21ویں صدی میں نہیں ہیں؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ہیں بلکہ 21 ویں صدی شروع ہی فرسٹ ورلڈ سے ہوئی تھی‘‘ میں نے عرض کیا ’’سو فیصد درست لیکن یہ یاد رکھیں فرسٹ ورلڈ میں کسی سرکاری اور غیرسرکاری دفتر میں ٹیلی ویژن نہیں ہوتا‘ اسکرین صرف ویٹنگ روم یا ویٹنگ ایریا میں نظر آتی ہے‘ باس کے کمرے میں ٹی وی نصب ہوتا ہے لیکن وہ ہمیشہ بند رہتا ہے اور صرف نائین الیون جیسے کسی بڑے واقعے پر ہی آن ہوتا ہے۔
آپ نے فلموں میں دیکھا ہوگا امریکی صدر یا برطانوی وزیراعظم کو ان کا اسٹاف آ کر کہتا ہے سر! آپ پلیز ٹی وی آن کر لیں اور وہ ٹی وی آن کر کے کوئی بریکنگ نیوز دیکھتے ہیں اور پھر ٹی وی بند کر دیتے ہیں جب کہ عام دفتروں میں یہ سہولت بھی نہیں ہوتی‘ لوگ وہاں صرف کام کرتے ہیں اور انھیں تمام بریکنگ نیوز رات کو چھٹی کے بعد ملتی ہیں‘انٹرنیٹ کی سہولت بھی ہر شخص کو دستیاب نہیں ہوتی‘ دفتروں میں سرورز لگے ہوتے ہیں‘ ملازمین کا فون نمبر اس میں ایڈ ہوتا ہے اور دفتر کے سسٹم کے ذریعے انھیں وائی فائی ملتا ہے اور یوں دفتر اپنے ملازمین کے موبائل پر نظر رکھتا ہے تاہم عوامی جگہوں پر یہ سہولت سب کو حاصل ہوتی ہے۔
دوسرا کمپنیاں اپنے ملازمین کو اپنے موبائل دیتی ہیں‘ ملازمین دفتر پہنچ کر ذاتی موبائل بند کر کے لاکر میں رکھتے ہیں اور دفتری فون آن کر لیتے ہیں اور چھٹی کے وقت دفتری فون بند کر کے دفتر میں چھوڑ دیتے ہیں یا پھر گاڑی میں رکھ دیتے ہیں اور ذاتی فون آن کر لیتے ہیں‘ یورپ میں وزیٹرز کسی سرکاری یا پرائیویٹ دفتر میں موبائل فون نہیں لے جا سکتے‘ دفتروں کے باہر ڈیجیٹل لاکرز لگے ہوتے ہیں۔
وزیٹرز موبائل اس میں رکھتے ہیں‘ لاک کرتے ہیں اور واپسی پر لاکر سے اپنا فون نکال لیتے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں ہر دفتر میں ٹی وی لگا ہوا ہے اور ہر شخص دو دو موبائل فون میز پر رکھ کر بیٹھا ہے چناں چہ ملازمین کا سارا دن بریکنگ نیوز اور موبائل کھا جاتا ہے اور یہ لوگ دن بھر فرسٹریشن اور اینگزائٹی کا شکار بھی ہوتے رہتے ہیں‘ ہمارے وزیٹرز بھی فون اٹھا کر سرکاری اور غیرسرکاری دفتروں میں دندناتے پھرتے ہیں‘ آپ کو وہاں بھی فون ملتے ہیں جہاں ’’فون منع ہے‘‘ کے بورڈ لگے ہوتے ہیں چناں چہ آپ ملک کی حالت دیکھ لیں۔
آپ اب یقیناً اس صورت حال کا حل پوچھیں گے‘ حل بہت آسان اور سادہ ہے‘ حکومت پہلے مرحلے میں سرکاری دفتروں کے ٹیلی ویژن بند کرا دے‘ ٹیلی ویژن صرف ’’ریسیپشن‘‘ یا وزیٹنگ ایریا میں ہونا چاہیے‘ یہ سہولت دفتر کے اندر نہیں ہونی چاہیے‘دفاتر کام کے لیے ہوتے ہیں‘ ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے نہیں‘ دوسرا سرکاری ملازمین کو سرکاری موبائل فون لے دیں‘ یہ فون صرف دفتر میں دفتری کاموں کے لیے استعمال ہونا چاہیے اور اس میں صرف وہ ’’ایپلی کیشنز‘‘ ہونی چاہییں جن کی دفتر میں ضرورت ہے‘ ان فونز پر فیس بک یا یوٹیوب نہیں ہونی چاہیے۔
ملازمین تبادلے کے بعد سرکاری فون نئے ملازم کو ہینڈاوور کر دیں‘ دفتروں میں کوئی ملازم ذاتی فون استعمال نہ کر سکے‘ یہ اپنا فون گاڑی میں چھوڑ کر آئے یا پھر دفتر کے لاکر روم میں جمع کرا دے اور چھٹی کے بعد جی بھر کر ٹک ٹاک‘ فیس بک اور یوٹیوب انجوائے کرے اور بے شک ساری رات ٹی وی دیکھے لیکن یہ دفتر میں ان سہولتوں سے لطف اندوز نہ ہو سکے‘ تیسرا ہم معاشرتی لیول پر ملک میں موبائل فون کے کثرت استعمال کی حوصلہ شکنی کریں‘ ہمارے ملک میں فرسٹریشن‘ ڈپریشن اور اینگزائٹی کی بڑی وجہ موبائل فون ہے‘ یہ نشہ بن چکا ہے اور ہم سب اس نشے کے عادی ہو چکے ہیں۔
آپ کسی بھی جگہ چلے جائیں آپ کو ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل فون ملے گا اور وہ تن ‘من اور دھن سے اس میں غرق بھی ہو گا‘ لوگ صرف بولتے وقت موبائل فون سے نظریں ہٹاتے ہیں لیکن جوں ہی دوسرا شخص ان کی بات کا جواب دینا شروع کرتا ہے یہ دوبارہ موبائل میں چھلانگ لگا دیتے ہیں‘ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک پورا ملک اس ’’ایڈکشن‘‘ کا شکار ہے حتیٰ کہ امام مسجد بھی سلام پھیرنے کے فوراً بعد موبائل اسکرین دیکھتے ہیں اور پھر دعا شروع کرتے ہیں۔
یہ ’’ٹو مچ‘‘ ہے اور ہمیں نیشنل لیول پر اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی ورنہ ہم اس موبائلیریا جیسی خوف ناک بیماری کا شکار ہو کر مر کھپ جائیں گے‘ آپ معاشرے کو بچائیں‘ ہمارا معاشرہ پہلے جہالت‘ غربت اور نااہلی کا شکار تھا‘ ہم نے اسے اب موبائل فون کی بیماری بھی لگا دی ہے چناں چہ پاکستان میں اب لوگ صرف روٹی‘ کپڑا اور مکان نہیں مانگتے‘ انٹرنیٹ بھی اب ان کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے اور یہ منہ سے کہتے ہیں آپ ہمیں موبائل فون اور انٹرنیٹ دے دیں ‘ روٹی اور کپڑے ہم کسی دوسرے سے مانگ لیں گے۔