جمہوریت کا حسن

قارئین! آپ سوچتے ہوں گے کہ آخر اس بندے کو کیا پڑی ہوئی ہے کہ ہر دوسرے دن آٹے کا قصہ لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ میں روزانہ شہر میں اور نواحی علاقوں میں آٹے کے ٹرک کے پاس مجبور خواتین و حضرات کو صبح سخت سردی میں ایک لمبی قطار میں کھڑا دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کے درمیان کہیں میں بھی کھڑا ہوں۔ میری ٹانگیں شل ہو چکی ہیں‘ ہمت جواب دے چکی ہے۔ میرے لیے مزید کھڑا رہنا ممکن نہیں مگر میرے گھر میں روٹی کے منتظر بچے اس سستے تھیلے کی آس میں دروازے کی راہ دیکھ رہے ہیں جہاں سے میں گھر میں داخل ہوں گا تو انہیں روٹی نصیب ہوگی۔
دوسری طرف یہ عالم ہے کہ ایک ایک خاندان کے چھ سات بندے قطار میں لگے ہوئے ہیں اور ساڑھے چھ سو روپے میں سرکاری ریٹ پر خرید کردہ دس کلو آٹے کا تھیلا تنور پر یا ہوٹل میں بیچ کر فی تھیلا چھ سات سو روپے کے حساب سے روزانہ کی چار پانچ ہزار روپے کی دیہاڑی لگا رہے ہیں۔ تنور والا یہ سستا سرکاری آٹا خرید کر پندرہ روپے کی روٹی فروخت کرکے روزانہ اپنا الو سیدھا کررہا ہے۔ ٹرکنگ پوائنٹ والا اس ایک خاندان کو چھ سات تھیلے فراہم کرنے کے عوض ہزار‘ بارہ سو روپے بنا رہا ہے۔ فی الحال ملتان میں سیاسی کھڑپنچوں اور سرکاری افسروں کے کھانچے کسی حد تک بند ہو چکے ہیں مگر مجموعی بدنیتی‘ نچلی سطح تک سرایت ہو جانے والی بے ایمانی اور لالچ نے معاملات کو اُس طرح سیدھا نہیں ہونے دیا۔ لاہور میں بیٹھے ہوئے محکمۂ خوراک کے ایک افسر نے اس سلسلے میں جتنی کاوشیں کرتے ہوئے سیاسی دباؤ برداشت کرکے معاملات کو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے‘ نتائج اس سے بہتر آنے چاہیے تھے مگر ہمارا قومی مزاج ہی بگڑ چکا ہے اور اللہ مجھے بدگمانی پر معاف کرے‘ مجھے اس میں کسی قسم کی بہتری کے امکانات بھی دکھائی نہیں دے رہے۔
یہ قطاریں دیکھ کر مجھے ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت تک حکومت کے قائم کردہ راشن ڈپوؤں کے باہر لگی ہوئی قطاریں یاد آتی ہیں۔ چوک شہیداں کے پاس ایک تنگ سی گلی میں رفیق چچا کا راشن ڈپو تھا جہاں سرکار کی طرف سے جاری کردہ راشن کارڈ پر آٹا اور چینی ملتی تھی۔ میں یادوں کے دریچے وا کرتا ہوں اور تب کا موازنہ آج کل کی صورتحال سے کرتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ چچا رفیق کے ڈپو کے سامنے لگنے والی قطار میں لگے ہوئے آٹے اور چینی کے امیدواروں کے چہروں پر وہ مایوسی‘ بے چارگی‘ جھنجھلاہٹ اور سسٹم کے خلاف وہ جذبات نہیں ہوتے تھے جو ان دنوں دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ نہ وہاں دھکم پیل ہو رہی ہوتی تھی اور نہ ہی کھینچا تانی یا مار کٹائی کی نوبت آتی تھی۔ لوگ سکون سے اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ساری قوم کا مزاج ہی بدلتا گیا اور پھر تو حد ہی ہو گئی۔ گزشتہ چند عشروں میں ساری معاشرتی بُنت ہی برباد ہو کر رہ گئی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی کو اس کا احساس ہی نہیں اور ہماری لیڈر شپ عوامی جذبات میں پیدا ہونے والے اس غیظ و غضب کو کم کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دینے اور اس پر تیل ڈالنے میں مصروف ہیں۔ اس معاشرتی تقسیم نے سیاسی لیڈر شپ کو بطور خاندان اپنا نجات دہندہ ہونے کے تصور کو جنم دے دیا ہے اور ان کے پیروکاروں کو ذہنی غلاموں میں تبدیل کر دیا ہے۔
میرے مورخہ آٹھ جنوری کے کالم بعنوان ”یہ صرف ایک ضلع کی کہانی ہے‘‘ پر اُسی روز صبح ہی صبح ایک مہربان کا فون آ گیا اور وہ کہنے لگا کہ قبلہ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کے حلقۂ انتخاب میں ایک یونین کونسل میں اثر و رسوخ رکھنے والے ارب پتی سابقہ فوڈ انسپکٹر کی جانب سے محکمہ فوڈ میں اپنی مرضی کی تعیناتی کے بارے میں میری اطلاع غلط ہے اور اس شخصیت نے اس ضمنی الیکشن میں قریشی خاندان کے بجائے گیلانی خاندان کی حمایت کی تھی۔ میں نے اپنے مہربان سے عرض کی کہ میں نے کالم میں لکھا ہے کہ میں تب ملک سے باہر تھا اور مجھے یہ اطلاع ایک نہایت معتبر دوست نے دی تھی؛ تاہم میں نے اپنے مہربان سے وعدہ کیا کہ اس بارے میں دوبارہ کنفرم کروں گا۔ میں نے اپنے اسی معتبر دوست سے دوبارہ دریافت کیا تو وہی بات درست نکلی جو کالم میں لکھی تھی۔ فون پر اس مہربان نے شاہ محمود قریشی کی پارسائی کی بات کی جس سے میں نے جزوی اتفاق کیا؛ تاہم جب اس مہربان نے پورے قریشی خاندان کی پارسائی کی بات کی تو میری اندر ہی اندر ہنسی نکل گئی۔ میں نے اپنے اس مہربان سے کہا کہ اگر اس پارسائی میں نئی نسل کو بھی شامل کیا جا رہا ہے تو مجھے اس سے اختلاف ہے کہ میں اس شہر میں رہتا ہوں اور زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھتا ہوں اور چند فرسٹ ہینڈ انفارمیشنز کی بنیاد پر اس دعوے کو رد کرتا ہوں۔
میرے گزشتہ کالم میں ایک پٹواری کے ریکارڈ لے کر غائب ہو جانے پر دوچار مہربانوں نے تفصیل پوچھی تو مناسب سمجھا کہ فرداً فرداً دوستوں کو تفصیل بتا کر منہ تھکانے سے کہیں بہتر ہے کہ اسے کالم میں ہی بیان کر دیا جائے تاکہ میرا اور ان کا وقت برباد نہ ہو۔ قصہ اس اجمال کا یہ ہے کہ ملتان بھی پاکستان بھر کی طرح سیاسی کھڑپنچوں اور پیدا گیر سیاستدانوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے اور ہر پیدا گیر پوسٹ پر سیاسی زور آور اپنے اپنے بندے کی تعیناتی کروا رہے ہیں۔ ان تعیناتیوں کے پیچھے جو رمز پوشیدہ ہے اس کا سب کو علم ہے اور اس رمز کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔
ملتان کی ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت جو ابھی تازہ تازہ ایم این اے کے عہدے سے فارغ ہوئی ہے اور اس کا بیٹا پنجاب اسمبلی ٹوٹنے پر اپنی ایم پی اے شپ سے فارغ ہوا ہے (ملتان کی صرف ایک شخصیت اس پر پورا اترتی ہے) اس فراغت شدہ بیٹے نے زور لگا کر ملتان کے موضع متی تل کا پٹواری اپنی مرضی سے لگوا لیا۔ (اس تعیناتی کے پیچھے کہانیوں پر چار حرف بھیجیں) دوسری طرف ملتان بلکہ جنوبی پنجاب میں ہونے والی پچاس فیصد سے زیادہ ٹرانسفرز اور پوسٹنگز کے پیچھے پچھلے کچھ عرصے سے اپنی نیشنل انشورنش کمپنی میں چھ ارب روپے کی غتربود میں ملوث اور سات سال قید کے سزا یافتہ ایاز خان نیازی ہیں جو وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے مشیر (اب سابقہ) اور خانیوال سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے کے والد ہیں اور اس سارے خطے میں ہونے والی ٹرانسفرز اور پوسٹنگز کے امام ہیں۔ ان کے ذریعے وزیراعلیٰ کے مشیر بننے والے جہانزیب خاکوانی نے مونس الٰہی کے زور پر طاقتور سیاسی لیڈر کے فرزند کی فرمائش پر لگوایا ہوا پٹواری تبدیل کروا کے اپنی مرضی کا پٹواری لگوا لیا۔ ان دونوں طاقتوروں میں کھینچا تانی سے بیوروکریسی پریشان تھی۔ فی زمانہ میرٹ کے مطابق مونس الٰہی کے بندے کو اس ملاکھڑے میں فتح نصیب ہوئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ موضع متی تل کا پٹواری مونس الٰہی کے بندے کا ہے مگر تگڑے سیاستدان کے برخوردار والا فارغ شدہ پٹواری اپنے بستے سمیت ڈیڑھ مہینے سے غائب ہے اور مخلوق خدا خوار ہو رہی ہے۔ اس پٹواری سے ریکارڈ کی وصولی کی مہم میں اب تک تین اسسٹنٹ کمشنر فارغ ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے پنجاب اسمبلی کے ٹوٹنے کے باعث پٹواری مع بستہ برآمد ہو جائے۔ حکومت کی بے بسی سے آپ ہماری جمہوریت کے حسن کا اندازہ لگا لیں۔