اہالیانِ ملتان پر دھند کی کرم فرمائی اور افتتاحی تختی

اللہ غریقِ رحمت کرے سید ضمیر جعفری کو‘ کیا شاندار مزاح لکھتے تھے۔ شاعری اور نثر میں یکساں رواں اور بے مثال۔ طبیعت میں ایسا بھولپن اور بچپنا کہ جی خوش ہو جائے۔ گوجر خان میں جی ٹی روڈ کے ساتھ متصل قبرستان میں آسودہ ٔ خاک ہیں۔ جب بھی کبھی اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ گوجر خان یا آگے تک سفر کیا‘ ہمیشہ سڑک کے کنارے گاڑی روک کر ان کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ ایک زمانے میں انہوں نے ایک مزاحیہ جریدہ نکالا۔ اردو زبان کے اولین مزاحیہ رسالے ”اودھ پنج‘‘ سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنے اس مزاحیہ جریدے کا نام ”اردو پنج‘‘ رکھا۔ یہ نہایت ہی شاندار اور بہت ہی معیاری مزاحیہ ادبی پرچہ تھا۔ ادبی پرچے کو چلانے کے لیے ثابت قدمی کے علاوہ اشتہارات اکٹھے کرنے کے لیے جس مزاج اور بھاگ دوڑ کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ ضمیر صاحب میں سرے سے مفقود تھا لہٰذا اس ادبی جریدے نے بند ہی ہونا تھا لہٰذا وہ چند پرچوں کے بعد ہی بند ہو گیا۔ ضمیر صاحب کے ساتھ ان کے معاون مرحوم سرفراز شاہد تھے۔ مزاحیہ شاعری کے حوالے سے ہم ایک کنبے کے لوگ تھے۔ سرفراز شاہد مرحوم مجھے یہ پرچہ باقاعدگی سے ارسال کرتے تھے۔ غالباً یہ اس کا پہلا یا دوسرا پرچہ تھا جس میں یہ نظم شائع ہوئی۔ افسوس کہ وہ رسالہ کہیں ضائع ہو گیا اس لیے سن اور تاریخ تو خیر کیا یاد رہتا‘ یہ بھی یاد نہیں کہ اس میں جو نظم چھپی تھی وہ کس کی تھی؛ تاہم اس نظم کی چند سطریں مجھے پوری صحت کے ساتھ یاد ہیں۔ اچھی تحریر اپنے آپ کو خود منوا بھی لیتی ہے اور دل ودماغ میں جگہ بھی بنا لیتی ہے۔
نظم کا عنوان تھا ”آزاد نظموں پر ایک نظم‘‘۔ یہ نظم نہ تو زیادہ طویل تھی اور نہ ہی بہت مختصر۔ اب پوری نظم تو یاد نہیں؛ تاہم مجھے اس کے چند ابتدائی مصرعے یاد ہیں۔ جو کچھ یوں تھے:
یہ سستی شہرت کی انتہا ہے
ادب میں اس کا جواز کیا ہے؟
میں مانتا ہوں کہ اس زمانے میں
چھپنا آسان ہو گیا ہے
مگر جو برتن کا منہ کھلا ہو تو
حرج کیا ہے کہ شرم تھوڑی سی کر لے ”بلی‘‘
محاورہ ہے
قارئین! یقین کریں اس نظم کا اس کالم سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ بس ایسے ہی موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر بلاوجہ ہی یاد آ گئی اور میں نے بھی بلاوجہ ہی کالم میں یہ چند مصرعے لکھ دیے۔ حالانکہ میں نے یہ کالم ملتان میں نہ ہونے والے نیوزی لینڈ اور پاکستان کے ٹیسٹ میچ کے بارے میں لکھنے کا ارادہ کیا تھا کیونکہ اہالیانِ ملتان کی گزشتہ ماہ ہونے والی تنگی‘ پریشانی اور خجالت کا سبب بننے والے برطانیہ اور پاکستان کے ٹیسٹ میچ کے بعد ملتان میں ہی نیوزی لینڈ والے ٹیسٹ میچ کے اعلان نے تو ہمارا تراہ نکال دیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو دھند کا کہ جس کے طفیل ہمارے سر سے یہ مصیبت ٹل گئی وگرنہ مزید چھ سات دن کی ذلت ہم ملتان والوں کا مقدر بنتی جیسا کہ ہم پہلے بھگت چکے تھے۔ کم از کم مجھے تو اس دھند کے باعث ملتان ایئر پورٹ کی متوقع بندش کی امکانی صورتحال کے طفیل ملتان کے ٹیسٹ میچ کی کراچی منتقلی پر جتنی خوش ہوئی ہے آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ایسی صورتحال کے لیے انگریزی میں A Blessing in Disguise یعنی شر میں سے خیر کا پہلو نکلنا کہتے ہیں۔
گزشتہ ٹیسٹ میچ میں پاکستان اور انگلینڈ کے کھلاڑی جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اس کے ساتھ ملتان کا ایک مرکزی چوک ہے اور سامنے سے گزرنے والی سڑک شہر کی مصروف ترین سڑکوں میں سے ایک ہے جو اس ٹیسٹ میچ کے باعث سات دن تک مستقل بند رہی۔ اسی سڑک پر دل کے امراض کا ہسپتال ہے اور اس کے مریضوں اور لواحقین کو جو دقت ہوئی تھی‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ کھلاڑیوں کو ہوٹل سے سٹیڈیم (جو شہر کے بالکل دوسرے مخالف کونے پر واقع ہے) لے جانے کے لیے کئی میل لمبا راستہ بند کر دیا جاتا تھا۔ صرف راستہ نہیں‘بلکہ راستے بند کر دیے جاتے تھے۔ شیر شاہ روڈ سے ایک راستہ براستہ عسکریہ بائی پاس پی سی کالونی کی طرف سے جاتا تھا وہ بند کر دیا جاتا تھا۔ اس راستے کے بند ہونے کی صورت میں عوام جو متبادل راستہ اختیار کر سکتے تھے وہ پرانا شجاع آباد روڈ تھا اور وہ راستہ بھی انتظامیہ احتیاطاً بند کر دیتی تھی۔ انتظامیہ کی پوری کوشش تھی کہ عوام کی ذلت و رسوائی اور پریشانی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ الحمدللہ کہ انتظامیہ اپنی کوششوں میں پوری طرح کامیاب ہوئی اور اہالیانِ ملتان سات روزہ تاریخی ذلت سے گزرے۔ اللہ بھلا کرے دھند کا کہ جس کے طفیل ہم مزید ذلت سے بچ گئے۔ اس ملک میں آسانی سے کسی کو بھی درست معلومات تک رسائی نہیں ہوتی اس لیے سنی سنائی پر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے اور سنی سنائی یہ ہے کہ پی سی بی نے اس میچ کی سکیورٹی کے لیے تو خیر سے جو کروڑوں روپے ادا کیے ہیں وہ الگ ہیں۔ صرف کرائے کے ان جنریٹروں کی مد میں جو ان مذکورہ سڑکوں کو بلاتعطل روشن رکھنے کی غرض سے رکھے گئے تھے‘ بلامبالغہ کئی کروڑ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ اس میں کھانچہ کتنا ہے؟ یہ لگانے والوں کے علاوہ صرف عالم الغیب کو ہی معلوم ہے۔ شاہ جی نے بتایا کہ آٹھ ہزار اہلکار اس میچ پر مامور تھے اور ان کو فی یوم مبلغ چھ سو روپے کھانے کی مد میں ادا کیے گئے تھے۔ یعنی سات دن میں تین کروڑ چھتیس لاکھ روپے اس مد میں خرچ ہوئے ہیں۔ اتنے پیسے خرچ کرنے کے عوضانے میں ٹیم کو شکست اور ملتان کے شہریوں کو ذلت نصیب ہوئی ہے۔
اسی قسم کی صورتحال کی منظر کشی لاہور میں کچھ عرصہ قبل ہونے والے میچ کے دوران ایک خاتون نے کی تھی۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ پی سی بی قذافی سٹیڈیم اور اسی نوعیت کے دیگر کرکٹ سٹیڈیمز میں پچاس ساٹھ کمروں کے ہوٹل بنائے جو سکیورٹی کے نام پر اس سارے ڈرامے کا واحد باعزت اور لانگ ٹرم سستا حل ہے۔ اسی طرح ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں ایک کرکٹ اکیڈمی کا سیٹ اَپ ہے جو عملی طور پر بیکار ہے، اسے ٹیموں کے رہائشی یونٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی پرائیویٹ کمپنی یہ کام اپنے پلے سے بھی کر سکتی ہے اور میچ کے دنوں کے علاوہ یہ ہوٹل کمرشل بنیادوں پر چلایا جا سکتا ہے۔ نہ عوام تنگ ہوں اور نہ ہی سکیورٹی کی مد میں کروڑوں روپے کا خرچہ ہو مگر بقول شاہ جی جن کا اس سارے چکر میں دال دلیا لگا ہوا ہے‘ وہ کیا کریں گے؟
ادھر ملتان میں ایک پارک کا بڑا شاندار افتتاح ہوا ہے۔ میں نے مورخہ چوبیس نومبر کو اپنے کالم بعنوان ”سرکاری منصوبوں پر ذاتی تختیاں‘‘ میں اپنے گھر کے ساتھ بننے والے ملک شوکت ڈوگر پارک کا ذکرکیا تھا۔ اس کالم کے شائع ہونے کے چند روز بعد (دسمبر کے آغاز میں) رات کے اندھیرے میں اس پارک پر ایک تختی لگا دی گئی ہے جس پر لکھا ہوا ہے ملک شوکت ڈوگر پارک کا افتتاح ملک محمد عامر ڈوگر ایم این اے این اے 155‘ وزیر مملکت برائے سیاسی امور و چیف وہپ قومی اسمبلی و جناب محمد عدنان ڈوگر صاحب سٹی صدر تحریک انصاف ملتان نے اپنے دست مبارک سے کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ موصوف قومی اسمبلی سے ماہ اپریل میں یعنی آٹھ ماہ قبل مستعفی ہو چکے ہیں۔ چیف وہپ کے عہدے سے بھی آٹھ ماہ قبل فراغت پا چکے ہیں اور وزارت ہاتھ سے گئے بھی آٹھ ماہ ہو چکے ہیں مگر ہم لوگ سستی شہرت کے شوق میں مبتلا ہیں۔ تاہم موصوف نے ایک سمجھداری ضرور کی ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والے افتتاحی منصوبوں کی تختیوں کے برعکس اس پر افتتاح کی تاریخ درج نہیں کی۔