تین بیانیوں کی وفات حسرتِ آیات … (آخری)

جس بیانیے میں سے سب سے جلدی ”پھوک‘‘ نکلی ہے وہ تیسرا بیانیہ ہے اور وہ یہ کہ اسحاق ڈار بہت زبردست ماہرِ معاشیات‘ توپ قسم کے وزیر خزانہ اور اقتصادی جادوگر ہیں۔ یہ عاجز تو عرصۂ دراز سے کہہ رہا ہے کہ موصوف کا معاشیات سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ وہ صرف ایک اعلیٰ درجے کے اکاؤنٹنٹ ہیں جو نفع و نقصان کو اوپر نیچے کرنے‘ کمپنی کی بیلنس شیٹ میں مہارت سے گڑ بڑ کرنے‘ بینکوں سے معاملات طے کرنے‘ کمپنی کے Assetsکو بڑھا چڑھا کر اوقات سے زیادہ قرضہ منظور کروانے اور پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کو ری شیڈول کروانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے‘ عام آدمی کی معاشی حالت بہتر کرنے یا ملکی آمدنی بڑھانے کا نہ کوئی فارمولا ہے اور نہ صلاحیت۔ اگر انہیں چالاک فنانس منیجر‘ اعلیٰ درجے کا اکاؤنٹنٹ یا اعداد و شمار کے ہیر پھیر کا ماہر کہا جائے تو یہ عاجز نہ صرف اس کی تائید کرے گا بلکہ اس پر انہیں شاباش بھی دے گا۔ مگر ماہرِ معاشیات والے معاملے پر یہ فقیر اپنے سابقہ مؤقف پر قائم و دائم ہے۔
موصوف محض ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں جو دنیا میں کہیں بھی ماہرِ معاشیات تصور نہیں کیا جاتا۔ میں نے فیصل آباد کے ایک سیٹھ کو اپنے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو اپنے کانوں سے ”منشی کو بلاؤ‘‘ کہتے ہوئے سنا اور اس سے دل ہی دل میں اتفاق بھی کیا مگر آج کل حالات کی خرابی‘ مقدمات کی بھرمار‘ پکڑا پکڑائی کی پھرتیوں اور مختلف بہانوں سے رگڑا لگانے کے موسم میں بہتر یہی ہے کہ بندہ میسنا بن کر پھرتا رہے۔ جب سے فواد چودھری کو معزز لوگوں کو منشی کہنے کی پاداش میں تھانے اور حوالات کی سیر کرتے دیکھا ہے اور لفظ منشی کے نئے نئے مفاہیم سے آگاہی ہوئی ہے‘ اس عاجز نے کسی کو منشی کہنے کی خواہش کو دل کی حد تک محدود کر لیا ہے اور اس کو کسی سے منسوب کر نے‘ لکھنے اور پکارنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے وگرنہ آج اس لفظ کے استعمال کرنے کا بڑا مناسب موقع تھا مگر احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
مفتاح اسماعیل سے سو اختلاف کیے جا سکتے ہیں مگر کم از کم انہوں نے سو پیاز اور سو جوتے کھانے والے شہرۂ آفاق طریقہ کار سے یکسر بچ بچاؤ کرتے ہوئے فوراً ہی سو… کھانے کا نہ صرف ارادہ کر لیا‘ بلکہ اس ارادے کو نبھا کر بھی دکھایا۔ قارئین! پچھلے جملے میں جو میں نے جگہ خالی چھوڑی ہے اس کو پُر کرنا آپ کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی کہ اس جگہ پر کیا لکھوں۔میرے سفری پاؤچ میں تین سو ڈالر‘ دو سو پاؤنڈ اور اڑھائی سو یورو پڑے ہوئے ہیں۔ مورخہ سولہ جنوری کو ان کرنسیوں کی شرح تبادلہ علی الترتیب 228‘ 279اور 247روپے تھی۔ اس حساب سے میرے پاس اُس روز کل ایک لاکھ 85ہزار 950روپے کی غیرملکی کرنسی پڑی ہوئی تھی۔ کچھ کیے بغیر مورخہ یکم فروری 2023ء کو‘ یعنی صرف پندرہ دن بعد میرے پاؤچ میں پڑے پڑے اس کرنسی کی قیمت علی الترتیب 270‘ 331اور 292روپے ہونے سے میری کل ذخیرہ شدہ غیرملکی کرنسی کی مجموعی مالیت 2لاکھ 20ہزار 200روپے ہو گئی۔ اس طرح مجھے عزیزی اسحاق ڈار کی اعلیٰ معاشی مہارت کے طفیل گھر بیٹھے بیٹھے مبلغ 34ہزار 250روپے کا فائدہ ہوا ہے مگر اسی روز ان کی اسی بدترین معاشی مہارت کے طفیل پاکستان کے مجموعی قرضوں میں چار ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو گیا۔
موصوف نے برطانیہ سے پاکستان روانگی کے وقت فرمایا تھا کہ میں ڈالر کو دو سو روپے پر لے آؤں گا۔ انہوں نے جس طرح اپنی گزشتہ وزارت میں ڈالر کو جعلی طریقوں سے کم قیمت پر روکے رکھا‘ ان کا خیال تھا کہ وہ اس بار بھی اسی پرانی آزمودہ ترکیب کو استعمال کرتے ہوئے ڈالر کو دو سو روپے پر لے آئیں گے اور پٹرول وغیرہ کی قیمتیں بھی کنٹرول کر لیں گے۔ اس طرح وہ مفتاح اسماعیل کو خوار کرکے وزارت سے نکالنے کے عمل کو اپنی کارکردگی سے درست ثابت کر دیں گے مگر اب حالات وہ نہیں تھے۔ اب خزانے میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ کبھی آپ مارکیٹ سے ڈالر خرید کر زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھا لیں اور کبھی ڈالر مارکیٹ میں پھینک کر اس کی قیمت کو نیچے لے آئیں اور اس جادوگری کو اپنی معاشیات پر دسترس ظاہر کریں‘ لیکن اس بار بقول شاعر:
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
تاہم انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے شرح تبادلہ میں زمین آسمان کے فرق کے باعث ہنڈی اور حوالہ والوں کی چاندی ہو گئی اور ملک کو تین ماہ میں چھ بلین ڈالر کے زرِمبادلہ کا نقصان ہوگیا۔ فی الحال صورتِ حال یہ ہے کہ مورخہ 2 فروری 2023ء کو ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر 3.8 بلین ڈالر رہ گئے تھے۔ یہ 3.8 بلین بھی دراصل وہ اعداد ہیں جو ہمارے جیسے ”فُکرے‘‘ کسی زمانے میں برطانیہ وغیرہ کا ویزا لگوانے کے لیے درخواست کے ہمراہ درکار بینک سٹیٹمنٹ جیسی گھٹیا شرط کے باعث کسی خوشحال دوست کی منت کرکے اپنے بینک اکاؤنٹ میں کچھ رقم رکھوا لیتے تھے تاکہ ویزا اس مالی بدحالی کے طفیل مسترد نہ ہو جائے۔ اب اصلیت تو یہ ہے کہ منت ترلے کے ذریعے ادھار لے کر بینک میں جمع کروائی گئی اس رقم سے سفارت خانے والوں کو غچہ دے کر ویزا تو حاصل کیا جا سکتا ہے مگر اس رقم کا مالک تو بہرحال نہیں بنا جا سکتا۔ خزانے کا بھی یہی حال ہے۔ ہم نے متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور چین سے اپنی زرِمبادلہ کی سٹیٹمنٹ کو بہتر دکھانے کے لیے سات ارب ڈالر ادھار پر لیے ہوئے ہیں جبکہ اب خزانے میں 3.8 ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں‘ یعنی ہم اس امانت میں سے بھی 3.2 بلین ڈالر غتربود کر چکے ہیں اور اب ہمارے خزانے میں عملی طور پر ہمارا اپنا ایک ٹکا بھی موجود نہیں ہے۔
آخر ان برے حالات میں اسحاق ڈار کو پاکستان آنے کی اور پھر وزیر خزانہ کی مصیبت گلے ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے یہ ملین ڈالر سوال شاہ جی سے کیا (یہ دوسرے والے شاہ جی ہیں‘ زمانہ خراب ہے اس لیے بندے کو متبادل بندوبست بھی رکھنا چاہیے) تو انہوں نے کہا کہ اس ملک میں سچائی معلوم کرنا تو ایک ناممکن قسم کا کام ہے؛ تاہم ان کی معلومات کے مطابق اسحاق ڈار کے زور زبردستی سے پاکستان آ کر وزیر خزانہ کی کرسی سنبھالنے کے پیچھے ان کا ایک بہت بڑا ذاتی مقصد تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ اپنی سیل شدہ جائیداد‘ منجمد بینک اکاؤنٹ‘ اپنی پھنسی ہوئی سینیٹ کی نشست اور اپنے کیس ختم کروانے آئے تھے؟ شاہ جی کہنے لگے: یہ تو کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے اپنی گزشتہ وزارت کے زمانے میں ساڑھے آٹھ فیصد منافع پر بانڈز جاری کرنے کی جو سکیم جاری کی تھی‘مبینہ طور پر اس میں زیادہ تر بانڈز کے خریداراُن کے اپنے فرنٹ مین تھے۔ ان بانڈز کی ادائیگی اور نفع ڈالرز میں ادا ہوگا۔ اب تک یہ بانڈز تقریباً دو گنا مالیت کے ہو چکے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان کی ادائیگی کرانے کے لیے تشریف لائے۔ یہ سارے پیسے گھوم کر انہی کی جیب میں آنے ہیں۔ بھلے سے ان کے ماہرِ معاشیات ہونے کے غبارے سے ہوا نکلے یا یہ غبارہ سرے سے پھٹ جائے‘ ان کا گھر تو پورا ہو جائے گا۔ بانڈز والا معاملہ تو شاہ جی دیکھ رہے ہیں جبکہ معاشی بدحالی‘ عملی طور پر ڈیفالٹ‘ قرضوں میں چار ہزار ارب کا اضافہ اور درآمد و برآمد پر غیراعلانیہ بندش اور ڈالروں کی کمی نے ان کے ماہرِ معاشیات ہونے کے بیانیے کی وفات پر مہر ثبت کر دی ہے‘ کوئی نہ مانے تو اس کا کیا کیا جا سکتا ہے؟ (ختم)