تاریخ کا کوڑے دان

یہ سال جو ابھی ابھی گزرا ہے‘ اکیسویں صدی کا بائیسواں سال‘یہ دنیا کو کیا دے گیا اور اس سے کیا لے گیا‘ اس بحث کو رکھیئے ایک طرف‘ پاکستان اور اہل ِ پاکستان کے حوالے سے گفتگو کی جائے تو اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے نہ مسرت کا‘ گزشتہ ایک سال کے دوران ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا رہا اُس نے یہ تو بہرحال واضح کر دیا کہ ہماری سیاست ماضی سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ آج پاکستان جس حال میں ہے۔ کسی ایک فرد‘ کسی ایک جماعت‘ کسی ایک ادارے کو اس کا سو فیصد ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کم یا زیادہ کی بحث ہو سکتی ہے لیکن کوئی ایک بھی اپنے آپ کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا۔ پاکستانی معیشت سخت دبائو میں ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ رہنمایانِ وطن ہی ڈیفالٹ‘ ڈیفالٹ کے نعرے لگا رہے ہیں‘ایک دوسرے کو اس سے ڈرا رہے ہیں‘ایک دوسرے پر اس کی ذمہ داری ڈال رہے ہیں‘ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں‘ یہ جانے بغیر کہ ؎
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
بھائی اگر ڈیفالٹ کا خطرہ ہے‘ واجب الادا قرضوں کی ادائیگی ممکن نہیں لگ رہی تو ایک دوسرے کو کوسنے دینے سے تو بات نہیں بنے گی ۔اگر گھر کا کوئی فرد کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے یا زخمی ہو جائے یا اُس کو چوٹ لگ جائے تو تمام گھر والے علاج کی فکر کرتے ہیں‘ اُسے لے کر ہسپتال دوڑتے ہیں‘ وسائل نہ ہوں تو اس کا انتظام کرتے ہیں‘جمع پونجی یکجا کرتے ہیں‘ سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں جو بھی جتن کرنا پڑے کرتے ہیں کہ عزیز کی صحت بحال ہو‘ اُسے بیماری کے چنگل سے نجات ملے۔ آج تک ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ گھر والے‘ مریض کا علاج کرنے کے بجائے آپس میں اُلجھ رہے ہوں‘ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہوں‘ ایک دوسرے کو بیماری کا ذمہ دار قرار دے رہے ہوں اور مریض کی طرف توجہ دینے پر تیار نظر نہ آئیں۔ پاکستان کی معیشت دبائو میں ہے۔اس کے خزانے میں ڈالر کم ہو رہے ہیں‘ان کے حصول کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے تو پھر ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر وہ شخص جسے رہنمائی کا دعویٰ ہے ایک دوسرے کو دعوت دے کہ آئو مل بیٹھو۔ عمران خان شہبازشریف کو فون کر رہے ہوں تو شہبازشریف عمران خان سے مشورے کے لیے بے تاب ہوں‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے لیے بھی بانہیں کشادہ کی جا رہی ہوں‘ سب ایک ساتھ بیٹھیں اور غور کریں کہ معیشت کو بحال کیسے کرنا ہے‘ دبائو سے کیسے نکالنا ہے‘ حالات کو کیسے سنبھالنا ہے‘ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست دل اور دماغ دونوں سے محروم ہو چکی ہے۔
پاکستان دنیا کا پہلا ملک نہیں ہے جو معاشی مشکلات میں مبتلا ہے۔ بڑے بڑے ممالک بھی بڑے بڑے بحرانوں کا سامنا کرچکے ہیں‘ان سے نکل کر دکھا چکے ہیں۔ پاکستان بھی کئی بار مشکلات میں گھرا اور اُن سے نکلا ہے جو مشکل آج درپیش ہے انشاء اللہ اس سے بھی نکل جائے گا‘ سوال یہ ہے کہ اس کی کس کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی‘اس کے کیا اثرات ہماری اجتماعی زندگی پر مرتب ہوں گے‘ جو لوگ مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے یا جن کی بے تدبیریوں سے مسائل میں اضافہ ہو گا‘آج کتنے ہی معتبر کیوں نظر نہ آئیں‘ بالآخر اعتبار کھو بیٹھیں گے۔
وہ سب لوگ جو پاکستانی ریاست کے وارث ہیں‘رہنمائی کا دعویٰ رکھتے ہیں‘ وہ ایک دوسرے کو ڈرانے اور دھمکانے کے بجائے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں اور ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دیں جس پر عمل کرکے بھنور سے نکلا جا سکے۔ عمران خان کم و بیش چار سال حکومت کر چکے‘ کل وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں جو جماعتیں آج اقتدار میں ہیں‘ وہ کل حزبِ اختلاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ اقتدار آنی جانی شے ہے۔پاکستان ایک جمہوری مملکت ہے۔ یہاں ووٹ کے ذریعے حکومتیں بنتی اور بدلتی ہیں‘ جو بھی رائے دہندگان کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنا لے‘ اقتدار اُس کا ہو جاتا ہے۔حصولِ اقتدار کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانا اپنی راہ میں گڑھے کھودنے کے مترادف ہے۔ اقتدار کی خواہش کوئی بُری بات نہیں‘ سیاسی جماعتیں اسی کے حصول کے لیے قائم ہوتی اور جدوجہد کرتی ہیں کہ اس کے ذریعے ہی وہ اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنا سکتی ہیں‘ ملک کو آگے بڑھا سکتی ہیں لیکن حصولِ اقتدار کے لیے ہر شے قربان کر دینے کا نام جمہوریت نہیں ہے۔
گزشتہ 75سال پر نظر دوڑایئے تو پاکستان میں کتنے حکمران آئے اور رخصت ہوئے۔ اُن میں ایسے بھی تھے جو اقتدار کو اپنے لیے خاص سمجھتے تھے لیکن آج منوں مٹی کے نیچے بے سدھ پڑے ہیں۔اُن میں ایسے بھی ہیں جن کے نام کسی کو یاد نہیں ہیں‘آج کے اہل ِ سیاست بھی کل خواب و خیال بن کر رہ جائیں گے۔نیا سال اُنہیں اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے‘ وہ اسے مایوس کریں گے تو اُن کے ہاتھ بھی خالی رہ جائیں گے۔
پاکستان کا دستور اہل ِ سیاست نے اتفاق رائے سے بنایا تھا‘ایٹمی پروگرام کو بھی قومی اتفاقِ رائے ہی کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا تھا۔پاکستانی معیشت کو منجدھار سے نکالنے کے لیے بھی مشترکہ کاوش کی ضرورت ہے‘ سب مل کر مشکلات کا سامنا کریں‘ اُن پر سیاست نہ کریں تو طوفان کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ گزشتہ بداعمالیوں کا مداوا کیا جا سکتا ہے۔نئے سال میں نئی سیاست کا آغاز کر دیجیے۔ ایک دوسرے کو تہہ تیغ کرنے کے منصوبے نہ بنایئے۔ ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہنے کا ہنر سیکھئے وگرنہ تاریخ کا کوڑے دان آپ کا منتظر ہے۔ پاکستان تو کسی نہ کسی طور سامانِ زیست کرلے گا‘ آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔
عاصمہ شیرازی کے کالم
باوقار‘ اور باکردار عاصمہ شیرازی ہمارے میڈیا کا فخر ہیں۔ٹی وی سکرین پر تو انہوں نے اپنا نام اور مقام بنایا ہی تھا‘ چار برس پہلے وہ ایک کالم نگار کے طور پر بھی سامنے آئیں‘ بی بی سی ڈاٹ کام کو اس رونمائی کا اعزاز حاصل ہوا۔ بہت کم وقت میں عاصمہ شیرازی کا شمار ممتاز کالم نگاروں میں ہونے لگا۔اُنہیں جہاں زبان پر قدرت حاصل ہے‘ وہاں حالات پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں۔اکثر اُن کے کالم ادبی شہہ پارے بھی بن جاتے ہیں۔ جرأت سے اپنی بات کہنے اور پھر اس پر جم جانے کی صلاحیت نے دبلی پتلی عاصمہ شیرازی کو دیو قامت بنا دیا ہے۔ اُن کے خلاف مہمیں چلائی گئیں‘اُن کی ذات کو نشانہ بنایا گیا لیکن اُنہوں نے میدان نہیں چھوڑا اور حملہ آوروں کو پسپا ہونے پر مجبور ر کردیا۔لاہور کے ”عکس پبلشرز‘‘ نے اُن کے کالموں کو کتابی صورت میں شائع کر کے پاکستانی صحافت اور سیاست کے طالب علموں کو ایک انمول تحفہ پیش کیا ہے۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ چار سالہ عمرانی دورِ حکومت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے عاصمہ شیرازی کے کالم وہ خام (بلکہ پختہ) مال فراہم کرتے رہیں گے جس کی بنیاد پر اس دور کی بے لاگ تصویر کشی کی جا سکے۔