پاک بھارت دشمن ہی اچھے لگتے ہیں

وزیرخارجہ بلاول بھٹو کی بھارت یاترا پر جو کچھ وہاں ہوا‘ اس پر مجھے نہ تو افسوس ہے اور نہ اس میں کوئی حیرانی کی بات ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے جو لب و لہجہ اختیار کیا انہیں وہی کرنا چاہیے تھا۔ بلاول نے بھی بھارتی وزیراعظم کے بارے میں جوبیان دیا‘ وہی دینا چاہیے تھا۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی‘ آپ کہہ رہے ہیں کہ دونوں کا رویہ ٹھیک تھا‘ دونوں نے ایک دوسرے کے ملکوں پر جو حملے کیے وہ درست کیے ہیں۔
کبھی امید تھی کہ شاید دونوں ملکوں کے درمیان حالات نارمل ہو جائیں گے لیکن اب عمر کے اس حصے میں پہنچ کر لگتا ہے کہ بہتر ہے خوابوں کی اس دنیا سے باہر نکل آیا جائے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی دوستی کی نہیں‘ دشمنی کی ضرورت ہے۔ انڈیا اور پاکستان صرف ان حالات میں ہی نارمل رہ سکتے ہیں جب دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہوں۔ ان ملکوں کی دوستی نارمل واقعہ نہیں لگتی۔جب ماضی میں کچھ عرصہ کیلئے مشرف دور میں تعلقات نارمل ہوئے تھے تو کہیں نہ کہیں ان نارمل تعلقات میں جعلی پن لگ رہا تھا۔ وہی ہوا اور دونوں ملکوں کے تعلقات وہیں جا پہنچے جہاں 1947ء سے شروع ہوئے تھے۔ جب ہماری بنیادوں اور ڈی این اے میں دشمنی اور ایک دوسرے کا لہو ہے تو ہم کیسے نارمل رہ سکتے ہیں؟ کئی مواقع آئے جب دونوں ممالک دشمنی ختم کرسکتے تھے لیکن کبھی جنرل نہ مانے تو کبھی سیاسی حکمران ڈٹ گئے۔
بھارتی وزیراعظم واجپائی 1999ء میں جب لاہور بس لے کر آئے تو وہ سب سے بہتر موقع تھا لیکن مشرف ڈٹ گئے اور الٹا ایک مذہبی جماعت کو لاہور میں مظاہرے کرنے کی ٹاسک دے دیا گیا۔ جب مشرف کو اندازہ ہوا کہ ان مظاہروں سے فرق نہیں پڑا اور واجپائی صاحب مینارِ پاکستان پہنچ کر پاکستان کو دل سے تسلیم کرنے کی تقریر اور کشمیر ایشو کو مستقل حل کرنے کا تحریری بیان دے گئے تو پھر انہوں نے کارگل پر جنگ چھیڑ دی جس میں تین ہزار فوجی شہید ہوئے جنہیں ہم تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ہم کہتے تھے یہ تو مجاہدین ہیں۔ اور آخر کارگل کی وجہ سے ہی پرویز مشرف پاکستان کے صدر بن بیٹھے اور فوراً وہی کام شروع کیا جس کی وجہ سے نواز شریف کی چھٹی کرائی تھی۔ جن واجپائی صاحب کو وہ واہگہ بارڈر پرسیلوٹ کرنے کو تیار نہ تھے ان سے خود ملنے آگرہ گئے اور انہیں بھی اسلام آباد بلوایا اور معاہدے کیے۔وہی مشرف جو کارگل کر چکے تھے اور نواز شریف کی بھارت دوست پالیسی کے خلاف تھے وہی بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کیساتھ مل کر 2006ء تک کشمیر کا مسئلہ تقریباً حل کر چکے تھے۔ لیکن کیا کریں اس خطے کی قسمت میں نارمل رہنا نہیں ہے۔ من موہن سنگھ نے مارچ‘ اپریل 2007ء میں اسلام آباد آنا تھا اور کشمیر کے حل کے معاہدے پر دستخط ہونے تھے لیکن پھر مشرف نے چیف جسٹس کو برطرف کیا ‘ تحریک چل گئی اور ایک کمزور حکومت کیساتھ بھارت کو معاہدہ کر کے کیا ملتا‘ بلکہ ان دنوں مشرف جتنے اَن پاپولر ہوچکے تھے کسی نے ان کے کشمیر حل کو قبول نہیں کرنا تھا۔یوں ایک اور موقع ضائع ہوا اور ایسا ضائع ہوا کہ اس کے بعد برسوں لگ گئے جب ایک اور موقع پیدا ہوا۔ یہ موقع دو سال پہلے 2021ء میں آیا جب جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے بھارت کیساتھ بیک ڈور چینلز اوپن کیے اور بھارتی وزیراعظم مودی اس بات پر تیار ہوگئے کہ وہ دس دن کیلئے پاکستان آئیں گے‘ بلوچستان میں ہندوئوں کے مقدس مقام پر کچھ دن گزاریں گے اور پھر ایک دن اسلام آباد تشریف لائیں گے جہاں وہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یہ اعلان کریں گے کہ دونوں ممالک اپنی دشمنی ختم کر کے دوستی کا نیا باب شروع کررہے ہیں‘ کشمیر کو بیس سال کیلئے فریز کیا جارہا ہے‘ کشمیر بارڈر کو ایزی کر دیا جائے گا تاکہ لوگ آرام سے آ جا سکیں‘ دونوں ممالک کے تعلقات نارمل رہیں گے اوربھارت پاکستان کے راستے افغانستان اور سینٹرل ایشین منڈی تک اپروچ کرسکے گا۔
جنرل باجوہ نے صحافیوں کو بلا کر ان سے مدد مانگی کہ ہمارے بھارت سے یہ انتظامات طے ہورہے ہیں‘ آپ اس معاملے میں پازیٹو رول ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان چھ سالوں میں اپنی فوج اور کمانڈروں پر بڑی محنت کی ہے کیونکہ ہمیں سکول کی درسی کتب سے لے کر کالج سے کاکول ملٹری اکیڈمی تک ایک ہی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہے اور اسے ہم نے تباہ کرنا ہے‘ اب فوج کو احساس ہوا ہے کہ اگر اسی طرح معاملات چلتے رہے تو ہم اپنا زیادہ نقصان کریں گے۔ پاکستان اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں یا ملک بچا لیں یا خطے میں دشمنیاں نبھا لیں۔مگراب کی دفعہ سیاستدانوں نے وہ کردار ادا کیا جو 1999ء میں فوجی قیادت نے کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان ڈٹ گئے اور انہیں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم پر کشمیر بیچنے کا الزام لگ جائے گا۔ دشمنی چلتی رہے تو ووٹ بینک بچا رہے گا۔ یوں عمران خان نے اپنی سیاست بچا لی اور بھارت کیساتھ دشمنی کی پالیسی قائم رکھی اور انکار کر دیا۔اگرچہ پاکستانی سیاستدان ہمیشہ سے اس حق میں رہے ہیں کہ بھارت کیساتھ تعلقات قائم کیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکیں گے‘ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر ملک کا بھلا نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے جہاں ایک کروڑ کشمیریوں نے بے پناہ دکھ اور تکلیفیں اٹھائی ہیں وہیں ہندوستان میں رہنے والے پچیس تیس کروڑ مسلمانوں پر بھی اس کا دبائو پڑاکہ اگر ایک کروڑ کشمیری ہندوستان میں نہیں رہ سکتے تو پھر یہ پچیس کروڑ مسلمان کیوں ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایک ایشو رہا کہ ہم پاکستانیوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ذہن میں رکھ کر بھارت کیساتھ اپنی خارجہ یا سکیورٹی پالیسی نہیں بنائی اور ہم پاکستانیوں کا غصہ بھارتی اپنے ملک کے مسلمانوں پر اتارتے ہیں۔ہم پاکستانیوں کو بھارت کیساتھ تعلقات اس لیول کے رکھنے چاہیے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے آسانی رہتی لیکن ہم آسانیاں کیا پیدا کرتے الٹادشمنی کو اس حد تک لے گئے کہ دونوں ملکوں کے وزیر خارجہ ایک دوسرے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ۔
وزیراعظم بینظیر بھٹو نے 1989ء میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو پاکستان بلوایا توانہیں سکیورٹی رسک قرار دے دیا گیا۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہیں احساس ہوا کہ بینظیر بھٹو کا راستہ ٹھیک تھا۔ انہوں نے پہلے واجپائی کو بلایا اور پھر مودی رائیونڈ آئے مگر محترمہ بینظیر کا صاحبزادہ الیکشن میں نعرے لگوا رہا تھا ”مودی کا جو یار ہے غدار ہے‘‘۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے بھارت کیساتھ دوستی کا نعرہ لگایا حالانکہ وہ بھی پہلے نواز شریف کے خلاف وہی مودی کا یار والا نعرہ مارتے تھے۔وزیراعظم بن کر ٹوئٹس تک کر دیے کہ امید کرتے ہیں مودی الیکشن جیت جائیں تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور پھر اسی مودی کیخلاف ٹوئٹ کر دیا کہ اعلیٰ عہدے پر چھوٹے لوگ بیٹھے ہیں۔ پھر عمران خان اسی مودی کو فون کالز کرتے رہے تو انہوں نے فون تک نہ لیا اور جب جنرلز بھارت کے ساتھ سب معاملات طے کرنے پر تیار ہوگئے تو وزیراعظم عمران خان پیچھے ہٹ گئے۔اب بلاول بھارت میں تھے تو تحریک انصاف جو مودی کے الیکشن جیتنے کی دعائیں مانگ رہی تھی‘ بلاول بھٹو پر گولہ باری کررہی تھی۔
یہ طے ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کبھی دوست نہیں بنیں گے۔ اس خطے کے لوگوں کو دوست نہیں‘ ایک دوسرے کا دشمن بنا کر ہی پاکستانی اور بھارتی سیاستدان حکومت کرسکتے ہیں۔ کبھی جنرل تو کبھی بی جے پی کے سیاستدان دوستی نہیں ہونے دیتے تھے۔ اللہ اللہ کر کے پاکستانی فوج اور وزیراعظم مودی راضی ہوئے تو عمران خان نے انکار کر دیا۔ اب اگر فوجی امن چاہتے تھے تو ہم سویلین تلواریں نکال کر نکل آئے۔شاید پاکستان بھارت دشمن ہی اچھے لگتے ہیں دوست نہیں‘ چاہے ہمارے ٹینکوں میں تیل تک نہ ہو۔