مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
مفاد پرستوں کی آخری لڑائی
عموماً ڈکیتی کی واردات سے قبل اس کی منصوبہ بندی کے دوران گروہ کے اراکین کی باہمی محبت اور واردات کے دوران ان کا مثالی ٹیم ورک دیکھنے کے لائق ہوتا ہے‘ تاہم ان کی ساری محبت اور ٹیم ورک اس وقت خواب و خیال معلوم ہوتا ہے جب وہ کامیاب ڈکیتی کے بعد مال کی تقسیم پر باہم دست و گریبان ہوتے ہیں۔ قارئین! مجھے معاف کیجئے گا‘ دراصل مجھے اور کوئی مناسب مثال مل ہی نہیں رہی تھی۔
مفاد پرستوں کی آخری لڑائی دراصل ان کی باہمی لڑائی ہوتی ہے‘ یہ سب کچھ مجھے اس لیے یاد آ رہا ہے کہ بالآخر اس ملک میں الیکشن تو ہوں گے ہی۔ حکمران زور آوروں سے گٹھ جوڑ کی بنیاد پر معاملات کو گھسیٹ تو سکتے ہیں مگر یہ بھی آخر کب تک ہو گا؟ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ رسہ بے شک سوگز لمبا ہی کیوں نہ ہو‘ گانٹھ بہرحال اس کے آخری سرے پر ہی باندھی جاتی ہے‘ لہٰذا سیاسی معاملات کے رسے کو خواہ کھینچ کھانچ کر کتنا ہی لمبا کیوں نہ کر لیا جائے‘ آخر کار الیکشن تو کروانے ہی پڑیں گے اور یہ وہ موقع ہے جب مفاد پرستوں کی باہمی لڑائی شروع ہو گی۔ مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں کے مابین بننے والے مفاد پرستی پر مبنی اتحاد کی ہنڈیا بالآخر الیکشن کے موقع پر چوک میں پھوٹے گی۔ انتخابات میں سیٹوں کی تقسیم پر تقریباً ویسی ہی صورتحال ہو گی جس طرح مالِ غنیمت کی تقسیم پر سر پھٹول ہوتی ہے۔ فی الوقت تو واردات چل رہی ہے اور سارا ٹیم ورک حسبِ توقع مثالی چل رہا ہے۔
ملتان فون کیا تو معلوم ہوا کہ کئی دن سے غچہ دینے میں مصروف سابق ایم پی اے واصف مظہر راں بھی سیاست سے تائب ہونے کی وبا کی زد میں آ گئے ہیں۔ یہ وبا حالانکہ بہت بری طرح پھیلی ہے مگر اس کا شکار صرف کمزور قوتِ مدافعت والے افراد ہی ہو رہے ہیں اور محض اتفاق ہے کہ اس کا شکار صرف وہی لوگ ہوئے ہیں جو نو مئی کو گھر سے نکل کر ممنوعہ علاقوں میں دخل اندازی کرتے رہے ہیں۔ ملکِ عزیز میں کورونا وائرس نے بھی اتنے دور رس نتائج مرتب نہیں کیے تھے جتنے کہ 9مئی سے پھیلنے والے انسدادِ سیاست وائرس نے مرتب کیے ہیں۔
ضلع ملتان میں صوبائی اسمبلی کی 13 نشستیں ہیں۔ الیکشن 2018ء میں ان 13 میں سے نو نشستیں تحریک انصاف نے حاصل کی تھیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے دو‘ پیپلز پارٹی نے ایک اور ہمارے دوست قاسم خان لنگاہ نے اپنی نشست آزاد امیدوار کے طور پر جیت لی تھی۔ تحریک انصاف کی نوسیٹوں میں سے حلقہ پی پی 214 سے جیتنے والے ایم پی اے ظہیر خان علیزئی کافی عرصہ سے سیاست میں غیر متحرک تھے اور انہوں نے سیاست سے دستبردار ہونے والی حالیہ وبا سے بہت پہلے سیاست سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا اور حلقہ پی پی 214 سے تحریک انصاف نے شاہ محمود قریشی کے قریبی عزیز اور ملتان کے سابقہ میئر مرحوم ریاض حسین قریشی کے فرزند معین ریاض قریشی کو آئندہ ہونے والے پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں ٹکٹ بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ ہمارا ایک اور عزیز دوست حلقہ پی پی 213 سے منتخب ایم پی اے بیرسٹر وسیم خان بادوزئی کیونکہ بروقت ملک سے باہر چلا گیا تھا اس لیے اس خوفناک وائرس کا شکار ہونے سے بچ گیا ہے‘تاہم بقیہ سات نشستوں پر منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی میں سے سلیم اختر لابر‘ جاوید اختر انصاری‘ میاں طارق عبداللہ اور مستقل وزارت سے لطف اندوز اور بہرہ مند ہونے والے ڈاکٹر اختر ملک کے بعد میرے کالج فیلو اور دوست ملک مظہر عباس راں مرحوم سابقہ ایم پی اے کے فرزند واصف مظہر راں نے کافی قوتِ مدافعت کا مظاہرہ کرنے کے بعد گزشتہ روز اس وبا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور پریس کانفرنس ویکسین کے ذریعے بحالیٔ صحت کی طرف پہلا قدم بڑھا دیا۔
ملتان کے نو میں سے ایک رکن صوبائی اسمبلی پہلے ہی سیاست چھوڑ چکا ہے‘ ایک بیرونِ ملک محفوظ و مامون ہے‘ پانچ عدد پریس کانفرنس فرما چکے ہیں اور باقی صرف دو اراکین صوبائی اسمبلی بچے ہوئے ہیں۔ ایک ہمارے پیارے شاہ محمود قریشی کے فرزند ارجمند زین قریشی ہیں اور دوسرا بھی ایک قریشی ہے‘ تاہم ضلع ملتان کی چھ قومی نشستوں میں سے پی ٹی آئی نے ابتدائی طور پر تو ساری یعنی چھ نشستیں جیت لی تھیں مگر ایک سیٹ بعد ازاں ضمنی الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ نے جیت لی۔ باقی والی سیٹوں میں احمد حسین ڈیہڑ اور قاسم نون عمران خان کے خلاف ہونے والی تحریک عدم اعتماد میں لوٹے بن گئے اور آج کل عظیم رہنما راجہ ریاض احمد کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی نام نہاد اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ بقیہ تین اراکین قومی اسمبلی میں سے ابراہیم خان اپنے قول و فعل پر نادم ہو کر ایک عدد پریس کانفرنس کے ذریعے سیاست سے تائب ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ باقی دو اراکینِ قومی اسمبلی ہمارے شاہ محمود قریشی اور عامر ڈوگر آن بچے ہیں۔ یعنی ضلع ملتان سے کل پندرہ عدد اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی میں سے کل پانچ اراکین بچے ہیں جن میں سے دو باپ بیٹا ہیں اور ایک برطانیہ میں ہے۔ ایک عامرڈوگر ہے اور دوسرا ندیم قریشی ہے۔
قارئین کرام! برا نہ منائیے گا مگر قبلہ شاہ جی کا فرمانا ہے کہ ملتان کینٹ میں ہنگامہ آرائی‘ ہلڑ بازی اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کی جو وڈیوز موجود ہیں ان میں عامر ڈوگر کو صاف دیکھا جا سکتا ہے‘ اس لیے گمان غالب ہے کہ دی گئی مہلت کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ایک عدد پریس کانفرنس کرکے اپنی جان چھڑوا لیں گے‘ تاہم ملتان کے ایک اور باخبر دوست کا کہنا ہے کہ عامر ڈوگر مورخہ تین جون کو عدالت میں پیشی کے موقع تک تو ان سارے معاملات میں ثابت قدمی کا دعویٰ کرتے ہوئے کسی قسم کی پریس کانفرنس کے امکانات کو رد کر رہے تھے؛ تاہم دیکھتے ہیں کہ نوجون کی ڈیڈ لائن تک کیا بنتا ہے۔
ملتان میں ایک عدد پرچہ اس قانون کے تحت درج ہونے کا منتظر ہے جس میں نامزد کردہ افراد کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا اور اس میں فی الوقت نامزد افراد میں ایک ابھی تک ثابت قدم ایم این اے‘ اس کا مفرور چھوٹا بھائی‘ ایک عدد سینیٹر اور چیئرمین پی ٹی آئی کا پورے جنوبی پنجابی کا سب سے بااعتماد ساتھی‘ جس کے بارے میں افواہ ہے کہ اس نے حالیہ صوبائی اسمبلی کی ٹکٹوں کی تقسیم میں بڑے نوٹ چھاپے ہیں۔ خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب رکنِ صوبائی اسمبلی پر تھانہ کینٹ میں ایف آئی آر درج تھی‘ کل اس خاتون نے بھی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔اس لسٹ میں وڈیو میں موجود ہنگامہ آرائی میں مصروف ایک ایم پی اے بھی تھا لیکن وہ بروقت پریس کانفرنس کرکے پتلی گلی میں سے نکل گیا ہے۔
مقامِ حیرت ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والے غیر تائب شدہ سیاستدانوں کی اکثریت زرداری صاحب سے رابطہ کر رہی ہے‘ تائب ہونے والوں کی اکثریت جہانگیر ترین سے ملاقاتیں کر رہی ہے۔ جہانگیر ترین یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ ان کو بڑے گھر کی حمایت حاصل ہے جبکہ زرداری صاحب منہ سے کچھ کہے بغیر اپنی مسکراہٹ کے زور پر پی ٹی آئی کے مفروروں کو خاموشی سے یہ باور کروا رہے ہیں کہ وہ بڑے گھر والوں کے اگلے گھوڑے ہیں‘ اس لیے کئی لوگ ادھر کا رخ کر رہے ہیں اور یہی کچھ (ق) لیگ کر رہی ہے۔ تینوں فریق ڈرے ہوؤں کو بڑے گھر کی اشیر باد کا لارا لگا کر بہلا پھسلا رہے ہیں۔ اس ساری مفروری اور پناہ گزینی کی کہانی میں مسلم لیگ (ن) کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ ابھی تک تو سارے مفاد پرست اکٹھے ہیں لیکن دیکھنے والا نظارہ تب ہو گا جب الیکشن کا رن پڑے گا اور مفاد پرست آپس میں لڑیں گے‘ لڑائی ہمیشہ ڈکیتی کے مال کی تقسیم کے وقت ہوتی ہے۔