ٹماٹر کا پھل سے سبزی تک تنزلی کا قصہ

بندے کی کھال تھوڑی سی موٹی ہو اور طبیعت میں ڈھٹائی کی مقدار تھوڑی بہتر ہو تو یہ ملک رہنے کیلئے بہت ہی شاندار ہے۔ دوسری صورت میں آپ مسلسل کڑھتے رہتے ہیں اور اپنی جان کو جلاتے رہتے ہیں۔ سو ہم جیسے دوسری کیٹیگری کے لوگ کڑھ بھی رہے ہیں‘ لکھ بھی رہے ہیں اور اس پر مستقل مزاجی کا یہ عالم ہے کہ حالات کی خرابی کے باوجود مایوس بھی نہیں ہیں کہ مایوس ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور اپنے فریضے سے ہاتھ اٹھا لئے ہیں۔ ابھی یہ نوبت بہرحال نہیں آئی کہ سَپر ڈال دیں۔
یہ بات نہیں کہ ملک میں سوچنے والوں کی‘ سمجھنے والوں کی اور درست سمت کی نشاندہی کرنے والوں کی کمی ہے‘ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ سارے کام یا تو قبل از وقت کرتے ہیں یا بعد از وقت۔ مثلاً اس ملک میں تبدیلی اور بہتری کی بات وہ شخص کرتا ہے جس کے پاس اس قسم کا نہ کوئی اختیار ہے اور نہ ہی کوئی طاقت۔ یعنی جب وہ کچھ بھی نہیں ہوتا تو وہ اس ملک میں بہتری لانے‘ تبدیلی لانے اور ٹھیک کرنے کی باتیں بھی کرتا ہے اور دعویٰ بھی کرتا ہے‘ لیکن اصلاً اس کے اختیار میں کچھ ہوتا ہی نہیں اس لئے اس کی باتوں اور ارادوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہوتا ہے۔ہمارے ہاں دوسری قبیل کے لوگ وہ ہیں جو اس ملک کو بنانے‘ سنوارنے اور درست کرنے کی باتیں تب کرتے ہیں جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ مثلاً ملک میں مارشل لاء کے دوران ہونے والی تمام تر خرابیوں کی نشاندہی وہ ریٹائرڈ جنرل کرے گا جو اس مارشل لاء کا اہم پرزہ رہا ہوگا۔ ملک میں ٹیکس کے نظام کی خرابیوں پر روشنی وہ ریٹائرڈ افسر ڈالے گا جو اِن ساری خرابیوں کاذمہ دا ر بھی رہا ہوگا اور ان خرابیوں کے طفیل اپنی اگلی سات پشتوں کیلئے مال بھی اکٹھا کر چکا ہوگا۔ ہمیں نیکی‘ دینداری اور رزقِ حلال کے فوائد وہ ریٹائرڈ بیورو کریٹ بتائے گا جس کی لوٹ مار کا ڈنکا چاروں طرف بجتا تھا اور اس کی رشوت ستانی کی دھوم ہر جانب مچی ہوئی تھی۔ اور بھلا عدلیہ اس سلسلے میں کسی سے پیچھے کیوں رہے؟ ہمارے اکثر معزز جج صاحبان ریٹائر ہونے کے بعد ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے نظام انصاف میں بہت سی خامیاں ہیں اور اگر انہیں بروقت درست نہ کیا تو یہ سارا نظام منہدم ہو جائے گا۔
حیرانی اس بات پر نہیں ہوتی کہ انہیں یہ خیال کیوں کر آیا ہے۔ حیرانی تو اس بات پر ہوتی ہے کہ انہیں یہ خیال ہمیشہ تب کیوں آتا ہے جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے اور اس وقت کیوں نہیں آتا جب وہ اس سلسلے میں واقعتاً کچھ کر سکتے ہیں؟ جب اختیارات کا یہ عالم ہو کہ چاہیں تو پارلیمنٹ کو لائن حاضر کر لیں اور معاملات کو ٹھیک کرنے کی غرض سے چاہیں تو قانون ساز ادارے کے پیچ پرزے کس دیں‘ تب تو انہیں نظام انصاف میں موجود سقم دکھائی نہیں دیتے اور جب وہ ریٹائر ہو کر گھر چلے جاتے ہیں تب انہیں خیال آتا ہے کہ اس ملک کے نظام انصاف میں بہت خامیاں ہیں۔ مجھے یہ ساری باتیں اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ گزشتہ روزہمارے نہایت ہی زور دار اور دھانسو قسم کے ریٹائرڈ جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے یہ فرمایا کہ ہمارے نظام انصاف میں بہت خامیاں ہیں۔
ویسے تو جنگ کے بعد یاد آنے والے مُکے کے استعمال کے بارے میں ہمارے ہاں ایک بہت ہی نامناسب سی تجویز موجود ہے تاہم میری یہ مجال نہیں کہ میں اس محاورے اور اس میں دیئے گئے مُکے کے استعمال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکوں تاہم لوگ خود اس سلسلے میں خاص سمجھدار ہیں اور محاوروں کے استعمال کے بارے میں اس عاجز سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں اس لئے میری طرف سے خاموشی کا کوئی خاص منفی اثر نہیں پڑے گا۔ جنگ کے بعد یاد آنے والے مُکے کے بارے میں محاورے کی بات چلی تو شاہ جی کہنے لگے: یہ مُکے والا محاورہ کیونکہ تشدد کے زمرے میں آتا ہے اس لئے اس سے دور ہی رہا جائے تو بہتر ہے تاہم وہ جو ایک محاورہ ہے کہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘ تو اس کے استعمال کرنے میں فی الحال کوئی حرج نہیں ہے۔
شاہ جی کہنے لگے کہ ہمارے نظام انصاف میں طاقت تو بے پناہ ہے لیکن روح نہیں ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ شاہ جی
اس روح سے آپ کی کیا مراد ہے؟ شاہ جی کہنے لگے :میں تم کو تمثیل سے سمجھانے کی کوشش کروں گا شاید تمہیں سمجھ آ جائے۔ اب نظام انصاف کی طاقت کا اندازہ یہاں سے لگا لو کہ جنرل مشرف کی حکمرانی کی قانونی حیثیت کا معاملہ عدالت میں آیا تو ہمارے نظام انصاف نے نہ صرف یہ کہ اسے جائز قرار دے دیا بلکہ از خود پرویز مشرف کو مانگے بغیر آئین میں ترمیم تک کا اختیار دے دیا۔ یہ فیصلہ جہاں ہمارے نظام انصاف کی طاقت کی تصویر کشی کرتا ہے وہیں اس میں روح کی عدم موجودگی کو بھی آشکار کرتا ہے۔میں نے کہا: شاہ جی یہ صرف ہمارے ہاں ہی کیوں ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: تمہیں کس نے کہا ہے کہ یہ صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے؟ تم نے مشہور امریکی مقدمے Nix v. Hedden کے بارے میں کبھی پڑھا ہے؟ میں نے لاعلمی میں سر ہلا دیا۔ شاہ جی کہنے لگے: بندے کا علم محدود ہو تو فالتو قسم کے دعوے نہیں کرنے چاہئیں۔ نکس بنام ہیڈن 1893ء میں امریکی سپریم کورٹ میں ایک مشہور مقدمے کا فیصلہ ہے۔ قصہ یوں ہے کہ نیو یارک کے رہائشی جان نکس کی ایک کمپنی تھی جو پھلوں کی درآمد کا کام کرتی تھی اور یہ ورجینیا‘ فلوریڈا اور برمودا سے پھلوں کو نیو یارک درآمد کرنے کی سب سے بڑی کمپنی تھی۔3مارچ 1893ء میں امریکی صدر چیسٹر اے۔ آرتھر نے ٹیرف ایکٹ پر دستخط کئے جس کے تحت درآمدی سبزیوں پر ٹیکس عائد کر دیا گیا تاہم پھل اس ٹیکس سے مستثنیٰ تھے۔ نیو یارک پورٹ کے کلکٹر ایڈورڈ ایل ہیڈن نے ٹیکس کی غرض سے ٹماٹر کو جو کہ تب تک پھل کے زمرے میں آتا تھا سبزی کی کیٹیگری میں شامل کر دیا اور اس کی درآمد پر ٹیکس عائد کر دیا۔ جان نکس نے نیو یارک پورٹ کے کلکٹر ہیڈن کی اس ناانصافی کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ جان نکس نے اپنے موقف کے حق میں ٹماٹر کی نباتاتی (Botanical) حیثیت کے حوالے سے ثبوت پیش کئے کہ پھل میں پائے جانے والے بیجوں کیلئے مخصوص قواعد کے اعتبار سے ٹماٹر کو پرکھا جائے تو یہ پھل کے زمرے میں آتا ہے نہ کہ سبزی کی کیٹیگری میں‘ تاہم عدالت نے پیش کئے جانے والے تمام تر نباتاتی ثبوتوں اور انگریزی کی مستند ترین ویبسٹر ڈکشنری‘ Worcester’s ڈکشنری اور امپیریل ڈکشنری میں موجود شواہد کے باوجود عدالت نے اپنے متفقہ فیصلے میں یہ لکھا کہ اس کے باوجود کہ Botanically ٹماٹر پھل کے زمرے میں آتا ہے تاہم کیونکہ یہ بظاہر سبزی کی طرح دکھائی دیتا ہے اور اسی کی طرح استعمال ہوتا ہے لہٰذا عدالت ٹماٹر کو کسٹمز قوانین اور قواعد و ضوابط کے تناظر میں سبزی قرار دیتی ہے۔ شاہ جی مسکرا کر کہنے لگے: ٹماٹر نباتاتی حیثیت سے بے شک پھل ہے مگر عدالتی فیصلے کے مطابق سبزی ہے اور 1893ء کے بعد ساری دنیا اسے سبزی ہی تسلیم کرتی ہے بھلے نباتاتی ماہرین اسے پھل ہی کیوں نہ سمجھتے ہوں۔ رہ گئی بات طاقت اور روح کی توعزیزم! جو چیز دکھائی دیتی ہے اس پر یقین کرو اور جو دکھائی نہیں دیتی اس کے چکروں میں نہ ہی پڑو تو بہتر ہے۔