ہیں مدتوں سے کہیں لاپتہ کمال کے دن…(1)

لاہور کے مال روڈ سے میرا بچپن کا رومانس جڑا ہوا ہے۔ کیا شاندار اور پُرسکون سڑک ہوتی تھی۔ احتجاج‘ جلسے‘ جلوس اور دھرنے وغیرہ کا مال روڈ پر نام و نشان تو کیا چشمِ تصور تک میں کوئی گمان نہیں تھا۔ ماموں محمود اللہ مرحوم کا گھر لوہاری دروازے کے اندر تھا۔ جہاں لوہاری دروازہ آخر میں جا کر انگریزی کے حرف T کی طرح دائیں بائیں دونوں طرف تقسیم ہو جاتا ہے‘ اس سے چند گز پہلے بائیں ہاتھ پر ایک تنگ سے کوچے کے اندر داخل ہوں تو بائیں طرف دوسرا گھر ماموں کا تھا۔ یہ چار منزلہ گھر تھا لیکن اس چار منزلہ کے نام سے آپ کسی بڑے گھر کا تصور نہ کریں۔ یہ چار منزلہ گھر کل چار کمروں پر مشتمل تھا یعنی ہر منزل پر ایک کمرہ۔ نیچے چھوٹی سی ڈیوڑھی تھی‘ اس کے ساتھ سیڑھیاں تھیں اور دوسری منزل سے چوتھی منزل تک ڈیوڑھی والی جگہ کے اوپر چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی ہر منزل پر نوعیت مختلف تھی۔
دوسری منزل پر تقریباً آٹھ ضرب آٹھ کے اس کمرے میں باورچی خانہ تھا۔ تیسری منزل پر اس کمرے میں ایک عدد جستی پیٹی اور دو چار ٹرنک تھے جبکہ چوتھی منزل پر اس کمرے میں باتھ روم تھا جہاں نہانے کا اہتمام تھا‘ تاہم ہم لڑکے اس چوتھی منزل والے باتھ روم کے بجائے اس کوچے کے مخالف سمت والی گلی میں بنی ہوئی مسجد کے باتھ روم میں جا کر نہاتے تھے۔ مسجد کی ٹوٹی میں آنے والا پانی ایسا ٹھنڈا ہوتا تھا کہ اب بھی سوچوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے۔ لیٹرین اوپر چوتھی منزل کی چھت پر تھی۔ وہاں ایک ممٹی بھی تھی جس پر چڑھ کر بسنت میں پتنگیں اڑائی اور لوٹی جاتی تھیں۔
کیا دن تھے جب گھروں میں پیٹی کا ہونا ایک لازمی امر تھا اور ہم جیسے لوئر مڈل کلاسیوں کا کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا تھا جو اس جستی پیٹی سے محفوظ ہو۔ تب اٹیچی کیس وغیرہ کے بجائے لوہے کی چادر سے بنے ہوئے ٹرنک ہوتے تھے جن میں ہم اپنے روز مرہ کے کپڑے رکھتے تھے۔ ہمارے گھر میں صرف ایک لکڑی کی الماری تھی‘جس میں کپڑے لٹکانے کی سہولت تھی۔ یہ اکلوتی ہینگر الماری ابا جی کے تصرف میں ہوتی تھی جس میں ان کے دو عدد موٹے اوور کوٹ‘ تین چار گرم تھری پیس سوٹ اور پتلونیں وغیرہ لٹکی ہوتی تھیں۔ خیر بات ماموں کے لوہاری دروازے والے گھرکی ہو رہی تھی۔ ہم ادھر لاہور گرمیوں کی چھٹیوں میں آتے تھے اور ظاہر ہے بالکل فارغ ہوتے تھے لہٰذا سارا دن مزے کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہ تھا۔ میرے ماموں بڑے شاندار اور بڑے نامور کاتب تھے۔ جی ہاں! تب انہیں کاتب ہی کہا جاتا تھا۔ کیلی گرافر کہلانے کا ابھی رواج نہیں آیا تھا۔ تب کے رواج کے مطابق وہ کتابت کرنے کیلئے اپنی بیٹھک میں چلے جایا کرتے تھے۔ تب بیٹھک سے مراد ویسے تو گھر کا ڈرائنگ روم ہوتا تھا لیکن ماموں کی بیٹھک سے مراد یہ گھر کے ڈرائنگ روم والی بیٹھک نہ تھی۔ کاتب جس ڈیرے پر بیٹھ کر کتابت کیا کرتے تھے‘ اسے بیٹھک کہا جاتا تھا۔ ماموں کی بیٹھک لوہاری دروازے سے نکل کر دائیں طرف والی سڑک سے بائیں طرف اردو بازار میں داخل ہوں تو دوسری تیسری دکان کے بعد اوپر سیڑھیاں جاتی تھیں۔ یہ ایک لمبا سا کمرہ تھا جس میں ماموں جی کے دو چار شاگردوں کے علاوہ ایک دو اور کاتب دیوار کے ساتھ لکڑی کے پھٹے سے ٹیک لگائے کتابت کر رہے ہوتے تھے۔ میں نے خوشخطی اور تختی لکھنا اسی بیٹھک میں سیکھا۔
ماموں جی کا پورا نام محمود اللہ صدیقی تھا اور نہایت ہی نامور اور نابغہ کاتب عبدالمجید پرویں رقم کے شاگردِ خاص تھے۔ تب علامہ اقبال کے کلام کے تمام جملہ حقوق شیخ غلام علی اینڈ سنز کے پاس ہوتے تھے اور علامہ اقبال کی تمام کتابوں کی کتابت ماموں محمود نے کی تھی۔ شیخ غلام علی کی چھپی ہوئی علامہ اقبال کی تمام کتابوں کے اندرونی ٹائٹل پیج کی پشت پر ”کتبہ محمود اللہ صدیقے‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ یہ میرے ماموں تھے۔ ان کا بڑا بیٹا خالد محمود صدیقی بہت شاندار کیلی گرافر ہے اور خاص طور پر قرآنی آیات کی کیلیگرافی میں اس کا کوئی جواب نہیں۔ اس کی تخصیص یہ ہے کہ وہ آج کل کے بہت سے کیلیگرافرز کے برعکس کمپیوٹر کے ذریعے کیلیگرافی کرنے کے بجائے آج بھی قلم سے اپنے فن کا اظہار کرتا ہے۔
ہم سارا دن فارغ ہوتے تھے اور لوہاری دروازے کے اندر ادھر اُدھر گھومنے اور بازار میں بیٹھے ہوئے کھٹے میٹھے چنے والے سے دن میں ایک آدھ بار چنے کھانے کے علاوہ عصر اور ظہر کی نماز کیلئے عموماً مسلم مسجد جاتے تھے جہاں تالاب کے پانی سے وضو کرتے ہوئے اندر تیرتی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیوں سے لطف لیتے۔ اسی طرح نیلا گنبد کی مسجد میں بھی تالاب کے پانی سے وضو کرنے کا چلن تھا۔ تب غلام رسول چنے والا بھی مسجد کے باہر بیٹھا کرتا تھا۔ لوہاری دروازے سے باہر نکلتے ہی دائیں طرف سرکلر روڈ کے کارنر پر مشہور زمانہ نعمت کدہ ہوٹل ہوتا تھا۔ نعمت کدہ کا کھانا کبھی ایک عیاشی سے کم نہیں ہوتا تھا۔ جہاں نعمت کدہ نے ہمیں کئی کھانوں کے ناموں اور ذائقوں سے متعارف کرایا وہیں زندگی میں پہلی بار سالن کو گرم رکھنے کی غرض سے دُہری تہہ والی سٹیل کی ایسی پلیٹیں دیکھیں جن کے اندر خالی کھوکھلے حصے میں گرم پانی بھر کر سوراخ کو لکڑی سے بند کر دیا جاتا تھا جس سے سالن دیر تک گرم رہتا تھا۔ اس ہوٹل کے بالکل مقابل سڑک کے دوسری طرف یعنی انارکلی بازار کی نکر پر ایک فالودے اور قلفی کی دکان ہوتی تھی۔ جس دن کہیں سے ایک ادھ روپیہ فالتو مل جاتا تو ہم ادھر کا رخ کر لیتے۔
انارکلی بازار کم ازکم تب ہمارے لیے جادو نگری سے کم نہ تھا۔ لوہاری دروازے سے انارکلی میں داخل ہوتے تو بائیں ہاتھ پر ایک گلی کے اندر قطب الدین ایبک کا مقبرہ تھا بلکہ مقبرہ بھی کیا‘ ایک خستہ حال چبوترے پر ایک اس سے بھی زیادہ خستہ حال قبر ہوتی تھی جس پر کسی خدا ترس نے کپڑا ڈال دیا تھا جو دھوپ اور بارش سے اپنا اصلی رنگ کھو چکا تھا اور خستگی میں چبوترے اور قبر کو بھی مات دے رہا ہوتا تھا۔ اس قبر کے سامنے والی دکانوں کے اوپر کاتبوں کی ایک اور بیٹھک تھی جس میں تب ایک اور مشہور کاتب سرور کتابت کرتا تھا۔ میں اپنے ماموں زاد خالد کے ہمراہ کبھی کبھار اوپر چلا جاتا تھا۔ اس گلی سے نکل کر مال روڈ کی طرف چلتے تو بائیں ہاتھ پر دہلی مسلم ہوٹل آ جاتا تھا۔ یہ ہوٹل سفید پوش معززین کا پسندیدہ رہائشی ہوٹل ہوتا تھا۔ ایبک کے مزار اور دہلی مسلم ہوٹل کے درمیان میں شیخ عنایت اللہ کی دکان آ جاتی جس کے شوکیس میں ایئر گنز یعنی چھرے والی بندوقیں لگی ہوتی تھیں۔ میں تقریباً ہر روز گزرتے ہوئے ان پر نظر دوڑاتا۔ ان کے ٹریگر گارڈ کے ساتھ دھاگے سے لٹکے ہوئے قیمت کے کارڈ کو حسرت سے پڑھتا۔ یہاں جرمنی کی مشہور زمانہ ”ڈائنا‘‘ کی چھرے والی بندوق کا ماڈل ستائیس سجا ہوتا تھا جس پر میرا دل آیا ہوا تھا مگر صرف دل آنے سے کیا ہوتا ہے؟ اس کی قیمت تب بھی ساڑھے تین سو روپے تھی جبکہ میری مسلم کمرشل بینک چوک شہیداں برانچ میں کئی سالہ بچت کے نتیجے میں جمع شدہ رقم اڑھائی سو روپے کے لگ بھگ تھی۔ یہ جو درمیان میں سو روپے کا فرق تھا اسے پورا کرنا تب ایک ایسا کام تھا جس کیلئے مزید ایک دو سال درکار تھے۔
ایک دن ابا جی کے ساتھ انارکلی بازار سے گزرتے ہوئے انہیں یہ چھروں والی بندوق دکھائی اور انہیں بتایا کہ جب میں اگلے سال ماموں کے گھر آؤں گا تو میرے پاس شاید ساڑھے تین سو روپے جمع ہو چکے ہوں گے۔ پھر میں یہ بندوق خریدوں گا۔ ابا جی کہنے لگے‘ اگر میں تمہیں یہی بندوق اڑھائی سو روپے میں لے دوں تو؟ خوشی سے میرا تو سانس ہی جیسے رک سا گیا۔ (جاری)