ہیں مدتوں سے کہیں لاپتہ کمال کے دن… (2)

ہم بھلا انارکلی سے اتنی آسانی سے کہاں گزرتے تھے؟ وہی روزانہ کی دیکھی ہوئی دکانیں اور ان میں سجی ہوئی چیزیں لیکن یہ سب کچھ ملتان میں کہاں ہوتا تھا؟ بانو بازار کی تنگ گلیوں میں داخل ہونے سے پہلے جو تھوڑی کشادہ سی جگہ تھی اس میں دائیں ہاتھ پر تین چار کھلونوں کی دکانیں تھیں‘ کھلونوں سے ایسی بھری ہوتیں کہ کھلونے دکان سے باہر امڈے پڑے ہوتے تھے۔ یہاں ونڈو شاپنگ ہمارا معمول تھا۔ اس چوک کے ساتھ بازار میں سڑک کے کنارے دو تین موٹر لانچوں والے بیٹھے ہوتے تھے‘ یہ ٹین سے بنی ہوئی دو اڑھائی انچ کی چھوٹی چھوٹی موٹر لانچیں ہوتی تھیں جن کے اندر ایک چھوٹی سی پلیٹ میں موم اور دھاگہ پڑا ہوتا تھا موٹر لانچ کے اندر پانی کی ایک چھوٹی سی ٹینکی بنی ہوتی تھی اور یہ موم بتی والی پلیٹ اس ٹینکی کے عین نیچے ہوتی تھی۔ اس پانی کی ٹینکی کے ساتھ دو باریک نلکیاں تھیں جن میں ہم ایک نلکی میں منہ سے پانی بھر دیتے تھے۔ یہ پانی ٹینکی میں بھی چلا جاتا اور جب دوسری نلکی سے پانی باہر آ جاتا تو ہم سمجھ جاتے کہ پانی پورا بھر گیا ہے۔ تب موم بتی جلا دی جاتی اور موٹر لانچ کو پانی بھرے تسلے میں ڈال دیا جاتا۔ پانی ابلتا اور اس کے بلبلے نلکیوں سے نکلتے جس سے موٹر لانچ چل پڑتی۔ یہ ہر سال کا معمول تھا کہ ملتان واپسی پر دو تین موٹر لانچیں ساتھ لائی جاتیں۔ ملتان میں ہمارے چچا زاد‘ پھوپھی زاد اور محلے کے دوست ان لانچوں کو دیکھ کر حیرت سے گم رہ جاتے۔
تین چار ماہ قبل میں اور ڈاکٹر عنایت تین دن کیلئے لاہور گئے اورطے پایا کہ سوائے آغا نثار کے کسی دوست کو اس آمد کے بارے میں نہیں بتایا جائے گا۔ آغا نثار کو بھی اس لیے بتایا گیا کہ اس کے ساتھ اندرون شہر میں کھابے کھانے کا اپنا ہی لطف ہے۔ یہ تین دن ہم نے کھانے پینے کی روایتی دکانوں کے تھڑوں اور فٹ پاتھوں پر گزار دیے۔ انارکلی سے گزرتے ہوئے جہاں یہ موٹر لانچوں والے بیٹھے ہوتے تھے‘ بڑا تلاش کیا مگر ان کا کوئی نام ونشان تک نہیں تھا‘ کھلونوں کی دکانوں کی تعداد بھی کم ہو چکی تھی اور قدیمی ملک شیک والی دکان کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ملک شیک اسی دکان سے پیا اور آم کے ملک شیک نے اتنا مزہ دیا کہ ابا جی سے ضد کر کے شیخ عنایت اللہ سے ایک بلینڈر خرید کر ملتان لائے۔
جہاں گنپت روڈ آ کر انارکلی میں ملتا ہے وہاں اس سڑک کے عین مقابل ایک پرانی عمارت ہے اور اس کا اینٹوں سے بنا ہواجھروکہ ہے کبھی یہ جھروکہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوے بکھیرتا ہو گا لیکن اب اس کہنہ اور خستہ حال جھروکے کو دیکھ کر ملال ہوتا ہے کہ اگر یہ یورپ وغیرہ میں ہوتا تو شہری گورنمنٹ اس قسم کی نادر شے کو ثقافتی ورثے کی فہرست میں ڈال دیتی اور اس کی اپنے خرچے پر تزئین و آرائش کرواتی مگر ہمارے ہاں اس قسم کا کوئی رواج ہی نہیں۔سرخ اینٹوں سے بنے ہوئے اس جھروکے کی کھڑکیوں کی جالیاں ٹوٹ چکی ہیں اور درمیانی کھڑکی میں لکڑی کی شیٹ اور سائڈ والی کھڑکی پر خستہ حال کپڑے کا پردہ اور نیچے تاروں کا ایک جال تھا۔ دن گزرتے ہیں کہ یہ جھروکہ بھی شاید صرف میری یادوں میں باقی رہ جائے گا۔
انارکلی کے اختتام سے پہلے الٹے ہاتھ پر کتابوں کی ایک بڑی دکان آئیڈیل بک ہاؤس ہوتی تھی۔ یہ میرا مستقل سٹاپ تھا جہاں میں مال روڈ پر جانے سے پہلے رک جاتا اور اس کے اندر گھومتا رہتا۔ بچوں کی کتابوں کے علاوہ دیگر تصویری کتابیں کھول کر دیکھی جاتیں۔ یہاں ایک کتاب پڑی دیکھی‘ اس کا نام Best of Life تھا۔ یہ ایک انگریزی رسالے Life کی بہترین تصویروں کے انتخاب پر مشتمل رنگین کتاب تھی۔ اس میں محمد علی کی ایک رنگین تصویر تھی جس میں وہ مخصوص انداز میں اپنا منہ پوری طرح کھولے مکا لہرا رہا تھا۔ اسی کتاب میں کریم عبدالجبار کی تصویر تھی جس میں وہ اچھل کر بال کو باسکٹ میں ڈال رہا ہے‘ کریم عبدالجبار باسکٹ بال کا لیجنڈ کھلاڑی تھا۔ سات فٹ دو انچ طویل القامت کریم عبدالجبار کا قائم کردہ 15837 فیلڈ گولز کا ریکارڈ گزشتہ چونتیس سال سے ابھی تک کسی نے نہیں توڑا۔ کریم عبدالجبار کا 1984ء میں 38387 پوائنٹس کا ریکارڈ بھی کم و بیش اڑتیس سال برقرار رہا۔ فرڈ یننڈ لیونس ایلسنڈور جونیئر نے چوبیس سال کی عمر میں 1970ء میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام کریم عبدالجبار رکھا۔ 1964ء میں محمد علی کے بعد یہ دوسرا عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی تھا جس نے اپنے عروج کے زمانے میں اسلام قبول کیا۔ باسکٹ بال کا کھلاڑی پاکستان میں تو محمد علی جیسی شہرت اور مقبولیت حاصل نہ کر سکامگر امریکہ میں شاید محمد علی سے زیادہ نہیں تو کم شہرت کا حامل نہیں تھا کیونکہ باسکٹ بال امریکہ کی مقبول ترین کھیل اور این بی اے سب سے زیادہ دیکھے جانے والا ٹورنامنٹ ہے۔ آج کل وہ مسلم کمیونٹی کے حوالے سے کافی متحرک ہے۔ کریم عبدالجبارکا ذکر تو درمیان میں آ گیا وگرنہ یہ موضوع تو ایک الگ سے پورے کالم کا متقاضی ہے۔ مجھے کریم عبدالجبار کے نام سے پہلی واقفیت اسی کتابوں کی دکان سے ہوئی۔
کتابوں کی یہ دکان انارکلی میں ہمارا آخری سٹاپ ہوتی تھی۔ اس کے بعد مال روڈ شروع ہو جاتا تھا۔ مال روڈ کی اپنی الگ دنیا
تھی ۔مال روڈ تب بھی اتنا ہی کشادہ تھا مگر ٹریفک کا ازدحام نہ ہونے کے کارن تب مال روڈ سڑک کم اور ہوائی اڈے کا رن وے زیادہ لگتا تھا۔ اب کوئی شاید اس بات پر یقین نہ کرے مگر میں نے شام کے قریب مال روڈ کی سروس روڈ پر لڑکوں بالوں کو کھیلتے ہوئے خود دیکھا ہے۔ مال روڈ پر میری دلچسپی کا مرکز بہرحال فیروز سنز کا شو روم تھا جہاں کا بچوں کا سیکشن تب ہمیں دنیا کا سب سے دلچسپ اور رنگین ٹکڑا لگتا تھا۔ درجنوں نہیں‘ سینکڑوں کتابیں ہمیں دنیا وما فیھا سے الگ کسی نگر میں لے جاتیں۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں رہتا تھا۔ تب موبائل وغیرہ تو ہوتے نہیں تھے کہ گھر والے ہمیں فون کر کے تلاش کر لیتے کہ ہم کہاں ہیں۔ بس جب احساس ہوتا کہ اب گھر میں ہماری لمبی غیر موجودگی پر پوچھ تاچھ شروع ہو چکی ہو گی تو گھر کو چل پڑتے‘ تاہم یہ بھی کوئی چند منٹ کا کھیل نہیں تھا۔ مال روڈ کے اس آخری سرے سے واپس پیدل گھر پہنچنے میں تو جو وقت لگتا تھا سو لگتا تھا‘ اس واپسی کے سفر میں بھی ہم جگہ جگہ رکتے اور ہر چوتھی دکان میں تانک جھانک کرتے جب گھر کی سیڑھیاں چڑھتے تو باوجود اس کے کہ ہمیں ممانی کی ڈانٹ کے بارے میں علم تھا کہ وہ بالکل اوپری اوپری ہو گی لیکن پھر بھی کوئی ایسا قصہ ضرورسوچ لیتے جس سے ممانی کی توجہ ڈانٹ سے ہٹ کر کسی اورطرف چلی جائے۔
تھوڑا عرصہ ہوا ممانی اللہ کو پیاری ہو گئیں‘ ممانی کا دم غنیمت تھا اور ان کے رخصت ہوتے ہی مرے ننھیال کے بزرگوں کا باب بند ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان سے آخری ملاقات مسجد الحرام کے باب ِفہد کے سامنے والے میدان میں اس طرح ہوئی کہ میں جدہ مشاعرہ پڑھ کر مکہ مکرمہ آیا تو خالد ممانی کو لے کر مکہ آ گیا۔ مکہ ہلٹن کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر میں نے وہیل چیئر پر بیٹھی ممانی کے پاؤں بھلا گھنٹہ بھر سے کم کیا دبائے ہوں گے۔ افتخار عارف اور عباس تابش اگر حرم سے واپس نہ آتے تو میں یہ سعادت کچھ دیر اور حاصل کرتا۔ اس عاجز کو یقین تھا کہ مالک ِکائنات نے فقیر کے اس عمل کو عبادت شمار کیا ہو گا۔
مال روڈ اور اس کے دونوں طرف سروس روڈز کے درمیانی فٹ پاتھ پر پرانے پیپل کے درخت تھے‘ ادھر پرانی فاکس ویگن وین میں زمزم سوڈا واٹر کی منی موبائل فیکٹری ہوتی تھی جس کی ومٹو کا مزہ یاد آتا ہے تو منہ میں پانی بھر جاتا ہے۔ (جاری)