انتخاب کی تاریخ لیتے لیتے

الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات8اکتوبر تک ملتوی کرنے کا جو تحریری فیصلہ صادر فرمایا ہے‘اس نے نئی آئینی اور قانونی بحث چھیڑ دی ہے۔پاکستان کی پہلے سے الجھی ہوئی سیاست میں مزید الجھائو پیدا ہو گیا ہے‘ فریقین ایک دوسرے پر گرج برس رہے ہیں۔تحریک انصاف اور اس کے متعلقین اسے آئین شکنی اور سپریم کورٹ کی توہین قرار دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے خلاف دستور کی دفعہ چھ کے تحت(آئین کو سبوتاژ کرنے کے الزام میں) کارروائی کا مطالبہ کرنے والے جذباتی قانون دان بھی میدان میں کودے ہوئے ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے اکلوتے رہنما شیخ رشید نے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا بھی دیا ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے بھی اس کی تیاریاں ہیں‘ اور تو اور صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط لکھ کر غم و غصے کا اظہار کیا ہے‘وزیراعظم کو تلقین کی ہے کہ وہ متعلقہ وفاقی اور صوبائی محکموں کو بروقت انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔ متنبہّ کیا گیا ہے کہ بصورت دیگر توہینِ عدالت کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔جناب صدر کے اس خط کا وزیراعظم کی طرف سے ہنوز کوئی جواب تو نہیں دیا گیا لیکن ان کے ”بے باک ترجمان‘‘ رانا ثنا اللہ نے صدرِ پاکستان کو اپنی ”اوقات اور آئینی حدود‘‘ میں رہنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ وزیراعظم جوابی خط لکھیں گے یا نہیں‘ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔وہ ایسا کریں یا نہ کریں‘ ان کی کابینہ کے مختلف ارکان الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں‘ بغلیں بجا رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے گورنر کو بھی سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت کے بعد اپنے صوبے کی اسمبلی کے لیے انتخاب کی تاریخ دے دیں۔ کئی ہفتے گزارنے‘کئی ملاقاتیں کرنے اور کئی خط لکھنے کے باوجود انہوں نے تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ پنجاب میں انتخابات کے التوا کی خبر سے حوصلہ پکڑ کر الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے کہ ان کے صوبے کے لیے بھی یہی تاریخ موزوں ہے‘ اسی روز یہاں بھی انتخاب کرا دیا جائے۔
یہ درست ہے کہ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ اگر کسی اسمبلی کی تحلیل کی جائے گی تو نوے روز کے اندر اندر اُس کا انتخاب کرانا ہو گا‘ جو لوگ اس مدت کی بہر صورت پابندی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ان کی بات میں بہرحال وزن ہے‘ آئین کے الفاظ انہیں طاقت فراہم کر رہے ہیں لیکن اس بڑی حقیقت کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے سنگین ترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کا نام نہیں لے رہا‘ اس نے شرط لگا دی ہے کہ جب تک دوست ممالک کی طرف سے معاونت کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی‘ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ پاکستان کی آئندہ سال زرِمبادلہ کی جو بھی ضرورت ہے‘وہ اُس کے دوست ممالک کے تعاون کے بغیر پوری نہیں ہو گی‘ وہ اسے قرض فراہم کریں یا پرانے قرض کی وصولی موخر کر دیں‘ تو پھر معاملات قابو میں آئیں گے‘معاملات طے کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش جاری ہے لیکن ابھی تک نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
ان حالات میں لازم تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے زعما سر جوڑ کر بیٹھتے اور بند گلی سے نکلنے کی تدبیر کرتے‘لیکن ایسا ممکن نہیں ہو رہا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے در پے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف کارروائیاں زوروں پر ہیں۔چھاپے پڑ رہے ہیں‘ مقدمات قائم ہو رہے ہیں‘گرفتاریاں جاری ہیں‘ عدالتوں کی طرف سے ضمانتیں لی جا رہی ہیں‘ تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے‘ لیکن کشیدگی میں کمی نہیں ہو رہی۔ عزیزم حسان اللہ نیازی‘ جو برادرم حفیظ اللہ کے بیٹے اور محترم عمران خان کے بھانجے ہیں ‘ کو ایک ایسے مقدمے میں گرفتار کر کے بلوچستان پہنچا دیا گیا‘جس کی ایف آئی آر میں ان کا نام ہی نہیں تھا‘ اظہر مشوانی کی ”گم شدگی‘‘ کی دہائی عمران خان دن رات دے رہے ہیں‘ ماحول آلودہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔خان کبھی ایک عدالت میں جاتے ہیں‘ کبھی دوسری میں‘کبھی ایک مقدمے میں حفاظتی ضمانت لیتے ہیں‘ کبھی دوسرے میں۔ان کے خلاف کتنے مقدمے کہاں کہاں درج ہیں‘ اس کی مصدقہ تفصیل ابھی تک سامنے نہیں آئی‘ ان کا دعویٰ ہے کہ تعداد سو تک پہنچنے والی ہے۔ مقدمہ ایک ہو یا ایک سو‘ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں‘ دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں‘ ہمارے فوجی افسر اور جوان نشانہ بن رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کو طویل انتخابی عمل میں دھکیلنے کے اثرات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں‘لیکن جس صورتحال میں ہم گرفتار ہو چکے ہیں‘اس کا تقاضا ہے کہ اہل ِ سیاست ایک دوسرے کے حال پر نہیں تو کم از کم اپنے اپنے حال ہی پر رحم کھائیں۔
مختلف وزرائے کرام کی طرف سے بار بار یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری جاری ہے‘اس کے نتائج سامنے آنے کے بعد نئی حلقہ بندیاں لازم ہوں گی‘ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئین میں یہ بھی درج ہے کہ انتخابات سے پہلے قومی اور صوبائی سطح پر نگران حکومتوں کا قیام عمل میں آئے گا۔اگر دو صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے ہو جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جب قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے تو ان صوبوں میں سیاسی حکومتیں موجود رہیں گی‘ان کے تحت کرائے گئے انتخابات پر نئے تنازعات کھڑے ہو جائیں گے۔جب دستور میں ترمیم کر کے انتخابات سے پہلے نگران حکومتوں کا قیام لازم قرار دیا گیا تھا تو اُس وقت آئین سازوں کے سامنے یہ صورت حال نہیں تھی‘ جو اب پیدا ہو چکی ہے۔اس کا حال بھی اجتہادی بصیرت سے نکالا جانا چاہیے۔ اگر قومی اسمبلی اور دوسری دو صوبائی (سندھ اور بلوچستان) اسمبلیوں کے قائد اپنے اپنے ایوان تحلیل کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو بیک وقت تمام اسمبلیوں کا انتخاب ممکن ہو جائے گا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اتحادی حکومت اور تحریک انصاف ”کچھ لو‘اور کچھ دو‘‘ کے جذبے سے معاملہ کر لیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخاب کچھ آگے ہو جائے‘دوسری اسمبلیوں کا کچھ پیچھے‘ یعنی قبل از وقت‘ اور یوں درمیانی راستہ نکل آئے‘ لیکن اس سب کے لیے بات چیت کی ضرورت ہے۔افہام و تفہیم کی ضرورت ہے‘ایک دوسرے کی ناک رگڑنے بلکہ کاٹ ڈالنے کی خواہش پالتے ہوئے تویہ ممکن نہیں۔ موجودہ حکومت کو اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل ہوتی تو اس کی مرضی کی آئین میں ترمیم کی جا سکتی تھی‘یہ بھی ممکن نہیں کہ اس وقت پارلیمنٹ خود خستہ حال ہے۔ایسے میں سپریم کورٹ ہی کو بوجھ اٹھانا ہو گا۔مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس مقصد کے لیے تمام جج حضرات پر مشتمل بینچ بنایا جائے‘ یعنی فل کورٹ سماعت کرے‘اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے کہ ہمارے زعما ایک دوسرے کے لیے گڑھے کھودنے میں مصروف ہیں‘ اور یہ بات یکسر بھول چکے ہیں کہ… جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے‘ وہ خود اس میں گرتا ہے۔انتخاب کی تاریخ لینے اور دینے والے کہیں خود تاریخ نہ بن جائیں‘ لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔