ذرا امریکن بن کر سوچیں

ایک لمحے کے لیے آپ خود کو امریکن تصور کریں اور پھر سوچیں آپ کے ذہن میں کیا چل رہا ہوگا خصوصاً جب آپ عمران خان کو امریکن کانگریس ویمن سے پندرہ سولہ منٹ زوم پر گفتگو کرتے سنتے ہیں جس میں وہ ان سے مدد مانگ رہے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کے ساتھ پاکستان میں زیادیتاں ہورہی ہیں۔
آپ یہ سوچ کر مسکرا رہے ہیں کہ یہی بندہ ایک سال پہلے ہم امریکیوں کو کہہ رہا تھا کہ ہم تمہارے غلام ہیں کہ جو آپ کہیں گے وہ ہم کر لیں گے۔ آج وہی بندہ ایک کانگریس ویمن سے کہہ رہا ہے کہ آپ ہماری مدد کریں۔ آپ امریکن سکون سے چسکے لے رہے ہیں۔ الٹا آپ اس کو سپورٹ دے رہے ہیں کہ بیٹا چڑھ جا سولی‘ رام بھلی کرے گا۔ کسی کو مروانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اُس بندے کو بانس پر چڑھا دیں۔ اس کی ہر غلط درست بات پر واہ واہ کرنا شروع کر دیں اور پھر اس کا دماغ خراب ہوتے دیکھیں اور کچھ عرصے بعد وہ دھڑام سے نیچے گرے گا اور کبھی نہیں اُٹھ پائے گا۔ عمران خان کی کانگریس مین اور سینیٹرز سے روزانہ رابطوں کی خبریں سن کر مجھے یاد آیا کہ اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں وزیراعظم عمران خان دورے پر آئے کسی بھی امریکن عہدے دار سے نہیں ملتے تھے۔ انہیں فارن آفس اور اردگرد موجود خوشامدیوں نے بانس پر چڑھا دیا تھا کہ آپ کو ہر ایرے غیرے سے ملنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کا عہدہ بہت بڑا ہے۔ آپ نے صرف امریکی صدر سے ملنا یا بات کرنی ہے‘ اور بدقسمتی سے ان دنوں امریکی صدر جو بائیڈن عمران خان سے بات کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایک فون کال کا پورا سال انتظار ہوتا رہا۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف نے امریکہ جا کر گلہ کیا کہ آپ ایک فون کال تک ہمارے وزیراعظم کو نہیں کرا سکے۔ اس فون کال کی وجہ سے امریکہ پاکستان تعلقات خراب ہوئے بلکہ یوں کہیں کہ عمران خان کے تعلقات خراب ہوئے۔ خان نے بھی اپنی عزت اور غیرت کا مسئلہ بنا لیا کہ جو بائیڈن کی کیا مجال کہ وہ کال نہ کرے۔
آج تک عمران خان دوسروں کے ساتھ یہ رویہ رکھتا آیا تھا کہ کسی کا فون سنے یا نہ سنے‘ کال کرے یا نہ کرے اور اب اچانک اسے ایک گورے ”خان‘‘سے واسطہ پڑ گیا تھا جس نے حکومت پاکستان اور فارن آفس کی تمام تر کوششوں کے باوجود عمران خان کا فون سننے سے انکار کر دیا۔ اس امریکن ”خان‘‘ کی ناراضی کی وجہ افغانستان تھا۔ جب امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تو سب سے زیادہ خوش عمران خان اور ان کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض تھے۔ عمران خان نے فوراً بیان داغا کہ افغانوں نے غلامی کی زنجیریں اتار پھینکی ہیں۔ امریکہ کو شکست دے دی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھ دیا۔ امریکن اپنی قوم کو دکھانے کے لیے بندہ ڈھونڈ رہے تھے کہ انہیں شکست اس بندے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ابھی عمران خان کے بیان کی سیاہی تازہ تھی کہ جنرل فیض کابل کے سرینا ہوٹل میں چائے پیتے نمودار ہوئے اور فرمایا‘ اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جب پاکستان کے وزیراعظم اور ڈی جی آئی ایس آئی کو خاموش رہنے کی ضرورت تھی تاکہ امریکہ جو بہانے تلاش کررہا ہے اس کی نظر ہم پر نہ پڑے‘ اس وقت ہی ہمارے وزیراعظم نے اپنے ہاتھ کھڑے کرکے امریکیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی کہ یہ سب ہمارا کیا دھرا ہے۔ یوں عمران خان اور پاکستان کے لیے مشکل دور شروع ہوا۔ ہم پاکستانی جب تک مظہر شاہ انداز میں بڑھک نہ مار لیں ہمیں رات کو نیند کہاں آتی ہے۔ یوں ان بڑھکوں کی وجہ سے عمران خان امریکہ سے دور ہوئے۔ عمران خان کو غصہ فون کال کا تھا کہ مودی کو تو بائیڈن نے حلف اٹھاتے ہی کال کی ۔
اس دوران عمران خان نے امریکہ سے رابطے توڑ دیے۔ جو بھی امریکی اسلام آباد آکر عمران خان سے ملنا چاہتا اسے وزیراعظم ہاؤس سے سیدھا جواب ملتا کہ ان کا لیول ایسا نہیں کہ وزیراعظم ان سے ملیں۔ وہ اپنے عہدے کے برابر پاکستانی اہلکاروں سے مل لیں۔ یوں آپ نے عمران خان کے ان ساڑھے تین سالوں میں کبھی انہیں امریکی سفیر سے ملاقات کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔ بہت سے سینئر امریکی عہدیداروں نے پاکستان کا دورہ کیا لیکن خان نے ملنے سے انکار کیا۔ سی آئی اے چیف بھی پاکستان آئے اور انہوں نے بھی عمران خان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے عہدے کے برابر پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی سے مل لیں۔
یوں جتنے امریکی پاکستان آئے‘ کسی سے عمران خان نہ ملے کہ ان کا سٹیٹس یہ نہ تھا۔ یہ بھی رپورٹ ہوا کہ ایک دفعہ تو امریکی سیکرٹری خارجہ نے فون پر بات کرنا چاہی تو انہیں کہا گیا کہ بہتر ہوگا وہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے بات کریں۔ یوں سب امریکن اہلکار اور سینئر افسران وزیراعظم سے انکار کے بعد آرمی چیف جنرل باجوہ اور سیکرٹ ایجنسیوں کے سر براہوں اور فارن آفس کے عہدیداروں سے مل کر چلے جاتے‘ بلکہ چند ایک تو اپوزیشن ارکان سے بھی ملتے۔ ان کا پاکستانی سیاست پر اِن پُٹ لیتے۔
وفاقی وزیر فواد چودھری سے بات ہورہی تھی کہ عمران خان کسی امریکی سے نہیں ملتے‘ ساری ملاقاتیں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف‘ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل باجوہ کرتے تھے۔ اس کا خان کو نقصان ہوگا۔ مان لیا کہ پروٹوکول کے تحت وزیراعظم کا سفیر یا سی آئی اے چیف یا فارن منسٹر سے ملنا نہیں بنتا اور ہمیں بڑا اچھا بھی لگتا ہے کہ ہم نے امریکہ کو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے۔ ایک سابق سیکرٹری خارجہ سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بڑی خوشی سے کہا کہ خان صاحب بالکل ٹھیک کررہے ہیں۔ میں نے فواد کو کہا تھا یہ امریکن انتظامیہ کے اہم لوگ ہیں۔ خان صاحب ان سے ملتے‘ اپنا مؤقف دیتے۔ پاکستان کا مقدمہ ان کے سامنے رکھتے اور انہیں قائل کرتے تو یہی لوگ پنٹاگان اور وائٹ ہاؤس جا کر خان کا کیس لڑتے اور بائیڈن کو انہی لوگوں نے رپورٹس دینی ہوتی ہیں کہ پاکستان کا نیا وزیراعظم کیسا بندہ ہے۔ بہتر ہے وہ ان سے اچھے تعلقات رکھیں اور انہیں فون کریں۔ جب امریکیوں سے آپ ملتے نہیں تو انہوں نے آپ کو اچھا نہیں سمجھنا‘ وہ تو ان لوگوں کو اچھا سمجھیں گے جو انہیں ملیں گے اور ان کو چائے پانی پلائیں گے‘ یہ فطری انسانی رویہ ہے۔
میں نے کہا تھا‘ خان کو جس نے بانس پر چڑھایا تھا کہ اس نے امریکیوں سے نہیں ملنا کیونکہ وہ بہت بڑے عہدے پر بیٹھا ہے‘ وہ اس کا دوست نہیں دشمن ہے بلکہ فواد کو یاد ہوگا کہ انہیں کہا تھا کہ میں تو سمجھتا ہوں خان کے ان قریبی لوگوں کو کہیں سے ٹاسک دیا گیا ہے کہ تم لوگوں نے خان کو بانس پر چڑھائے رکھنا ہے اور انہیں کسی امریکی سے نہیں ملنے دینا تاکہ امریکہ کی رائے ان کے بارے اچھی نہ ہو‘ اور وہ سب اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ فواد چودھری نے میری زیادہ تر باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی بات میں وزن ہے‘ لیکن اس کے باوجود وہی رویہ قائم رہا۔
اب بدلتے حالات میں اچانک خان صاحب کو امریکہ کی ضرورت پڑ گئی ہے کہ وہ پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالیں۔ اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈالیں کہ وہ خان کو دوبارہ وزیراعظم بنائیں۔ اب وہ اور ان کے حامی ایک ایک کانگریس مین اور ویمن کے ترلے کررہے ہیں کہ آپ ہمارے حق میں بیان جاری کریں۔ ویسے وہ درجن بھر سے زائد امریکن ڈپلومیٹس‘ سی آئی اے چیف‘ سفیر اور دیگر اعلیٰ عہدیدار جو اسلام آباد خان سے ملنے آئے تھے اور خان ان سے ان کا عہدہ کم ہونے کی وجہ سے نہ ملا‘ وہ اب ان خبروں پر کیا سوچتے ہوں گے کہ وہی وزیراعظم اب گمنام کانگریس ویمن کو زوم پر اپنے حق میں ٹویٹ کرانے کے لیے پورے سولہ منٹ سے کال کررہا ہے۔