یہ صرف ایک ضلع کی کہانی ہے

اس بات سے اختلاف نہیں کہ مہنگائی مقامی ہی نہیں عالمی مسئلہ بھی ہے اور ساری دنیا اس سے متاثر ہوئی ہے تاہم ہمارے ہاں ایک بات جو سب سے الگ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر عالمی مسئلے سے بھی جس طرح لوکل پیداگیری کی جاتی ہے اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔ گندم کا سرکاری ریٹ تئیس سو روپے فی چالیس کلو گرام ہے لیکن مارکیٹ میں گندم چار ہزار روپے سے لیکر سینتالیس سو روپے فی چالیس کلو گرام فروخت ہو رہی ہے یعنی اپنی سرکاری قیمت سے دوگنا سے بھی زیادہ قیمت پر۔ اس دوگنا قیمت کا سارا بوجھ غریب عوام برداشت کر رہے ہیں لیکن گندم کے سمگلروں‘ فلور ملز مالکان‘ سرکاری افسروں اور سیاسی کھڑپینچوں کی اس سارے معاملے میں جو دیہاڑی لگ رہی ہے عام آدمی کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ گندم کے سرکاری اور مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق جتنا زیادہ ہوتا ہے عوام اسی قدر زیادہ لٹتے ہیں تاہم درج بالا چاروں طبقے یعنی سمگلر‘ ملز مالکان‘ سرکاری افسر اور سیاسی زور آور اس سے اسی قدر زیادہ مستفید ہو رہے ہیں۔
ہم ایسی کاریگر قوم ہیں کہ سیلاب میں سے امدادی رقوم‘ زلزلوں میں سے خیمے‘ وبا میں سے ادویات اور آفات میں سے اشیائے خور و نوش غتربود کر لیتے ہیں۔ گندم کی سرکاری قیمت اور مارکیٹ پرائس میں بڑھتے ہوئے فرق سے ہم لوگ اپنا منافع ایسے نکالتے ہیں کہ اگر ہماری جگہ کوئی صاحبِ ضمیر شخص ہو تو وہ یہ سوچ کر ہی شرمندگی سے مر جائے کہ ایسی صورتحال میں بھی جیب گرم کی جا سکتی ہے جب عوام سستے آٹے کیلئے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہیں اور غریب آدمی تنور سے روٹی خریدنے کے بجائے مفت والے دسترخوان کے باہر منتظر کھڑا ہو۔
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں آٹا سستا ترین اناج تھا حتیٰ کہ فقیر بھی گھروں سے آٹا مانگا کرتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے اندر اندر آٹے کی قیمت دوگنا ہو چکی ہے۔ پنجاب میں فلور ملز کو سرکاری گندم تقریباً تیئس سو روپے فی چالیس کلو گرام فراہم کی جاتی ہے اور فلور ملز آج کل چار ہزار روپے سے لیکر سینتالیس سو روپے فی چالیس کلو گرام کے حساب سے آٹا فروخت کر رہی ہیں۔ تنور پر روٹی کی قیمت ایک سال کے اندر اندر سات روپے سے بڑھ کر پندرہ روپے فی روٹی تک پہنچ چکی ہے اور اس پر مستزادیہ کہ روٹی کا وزن بھی کم ہو چکا ہے۔
کسی ایک شہر کا ذکر تو بے معنی ہو چکا ہے سارے پاکستان میں ہی لوٹ مچی ہوئی ہے اور ہر جگہ طلب اور رسد کے مطابق آٹے کی قیمت کا تعین کیا جا رہا ہے اور اسی حساب سے سرکاری قیمت اور مارکیٹ ریٹ کے باہمی فرق کے مطابق کھانچہ لگایا جا رہا ہے۔ یہ کھانچہ کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں کہ اسے سمجھنا مشکل ہو۔ بڑا سیدھا معاملہ ہے۔ ملز مالکان‘ سرکاری افسران اور اس معاملے کے زبردستی حصے دار بننے والے سیاستدان سرکاری ریٹ والی گندم سے حاصل ہونے والے آٹے کے کوٹے کو آپس میں بانٹ کر کھا رہے ہیں۔ کسی افسر نے چھ سو تھیلے روزانہ اپنے نام کروا رکھے ہیں اور کسی سیاستدان کے فرنٹ مین نے آٹھ سو تھیلوں کا کلچہ لگا رکھا ہے۔ اس حصہ داری کے عوض ملز مالکان اپنا کھانچہ بھی فٹ کر رہے ہیں۔ اس انجمن امداد ِباہمی کا صرف ملتان ضلع میں حساب لگایا جائے تو سرکار صرف اس ایک ضلع میں عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کی غرض سے سرکاری ریٹ پرگندم کی فراہمی کی مد میں روزانہ تین کروڑ روپے کے لگ بھگ سبسڈی فراہم کرتی ہے‘ جس میں سے ایک تہائی بھی عوام تک نہیں پہنچ پاتی اور تقریباً روزانہ ایک کروڑ روپے کی سبسڈی یہ تینوں فریق آپس میں بانٹ کر برابر کر رہے ہیں۔
اب نام کیا لکھنا؟ شہر میں کتنے لوگ باقی بچے ہیں جن سے اس عاجز کی سلام دعا باقی رہ گئی ہو؟ لہٰذا نام رہنے ہی دیں۔ موصوف نے فوڈ انسپکٹری سے ارب پتی ہونے کا مرحلہ بڑی فنکاری سے طے کیا تھا اور پھر سیاست میں بھی اپنا لچ تل لیا۔ اب اپنے پیسے‘ کاروبار‘ تعلقات اور سیاسی کھڑپنچی کے طفیل ملتان کے خاصے معزز شخص تصور ہوتے ہیں۔ ملتان میں حلقہ این اے 157 میں ضمنی الیکشن تھا جس میں شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی اور سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کے درمیان مقابلہ تھا۔ موصوف سابقہ فوڈ انسپکٹر کے حلقۂ اثر کی ایک آدھ یونین کونسل اسی حلقے میں تھی۔ شاہ محمود قریشی نے موصوف سے رابطہ کیا تو اس نے اپنی سیاسی حمایت کیلئے شرط رکھ دی کہ محکمہ فوڈ ملتان کا انتظامی افسراس کی مرضی کا لگایا جائے تو وہ اپنا سیاسی وزن قریشیوں کے پلڑے میں ڈال دیں گے۔ میں تو ان دنوں پاکستان نہیں تھا مگر راوی جو کہ نہایت معتبر ہے بتاتا ہے کہ معاملہ ان کی مرضی مطابق طے ہو گیا۔ اس تعیناتی سے موصوف کے ساتھ ساتھ ایک نیک نام سیاستدان کے فرزندارجمند نے بھی اپنا دال دلیہ بنایا۔ ملتان کے اس نیک نام سیاستدان کا بھی وہی حال ہے جو عمران خان صاحب کا ہے کہ خود تو نیک اور پارسا مشہور ہیں مگر اردگرد والے سارے مال پانی بنانے میں مصروف ہیں۔
خیر سے الیکشن ہو گئے اور قریشی صاحب کی صاحبزادی اچھے خاصے مارجن سے ہار گئیں۔ دو چار دن بعد سابقہ فوڈ انسپکٹر کا لگوایا گیا بندہ بھی فارغ ہو گیا۔ اسی دوران نیک نام سیاستدان کے برخوردار کو یہ پتا چل چکا تھا کہ محکمہ فوڈ بھی سونے کی چڑیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار (کم از کم اس عاجز کے علم کے مطابق) محکمہ فوڈ میں ایک عدد چیئرمین بنایا گیا اور اس کے پیچھے بھی یہی برخوردار تھے۔ شنید ہے کہ روزانہ دو ہزار تھیلے سرکاری ریٹ پر لے کر اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے میں تقریباً سات لاکھ روپے کی دیہاڑی لگتی ہے جس میں دو حصے دار تھے۔ اسی دوران یوں ہوا کہ ملتان میں سرکاری کوٹے کی گندم کے با رے میں زیادہ خبریں اڑیں اور وہ لاہور پہنچیں تو محکمہ خوراک کے ایک بڑے افسر نے ملتان میں ایک سخت طبیعت انتظامی افسر بھیج دیا جس نے آہستہ آہستہ ہاتھ سخت کرتے ہوئے ہر زور آور کا برطانوی آئین کی طرح غیر تحریری الاٹ شدہ کوٹہ عملی طور پر منسوخ کر دیا۔ اس ”حرکت‘‘ سے کئی لوگ متاثر ہوئے۔ قرآن مجید میں ہے کہ مال اور اولاد فتنہ ہے اور اس معاملے میں تو اولاد اور مال دونوں ہی ملوث تھے لہٰذا ابا جی نے دباؤ ڈال کر وہ سخت گیر افسر تبدیل کروا دیا ہے اور اب گزشتہ دو روز سے راوی تھوڑا چین لکھتا ہے۔ وگرنہ دیہاڑی کی آمدنی گرتے گرتے دسواں حصہ رہ گئی تھی۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ دس کلو آٹے کا سرکاری ریٹ 648روپے اور بیس کلو آٹے کے تھیلے کا سرکاری ریٹ 1296روپے یعنی فی کلو آٹے کا ریٹ تقریباً پینسٹھ روپے ہے جبکہ مارکیٹ میں آٹے کا ریٹ 100روپے فی کلو ہے۔ اس طرح آٹے میں 35روپے فی کلو کھانچہ لگ رہا ہے۔ ضلع ملتان کی فلور ملز کیلئے گندم کا یومیہ سرکاری کوٹہ 8250بوری یعنی بیس ہزار چھ سو پچیس من ہے۔ اس گندم میں سے فلور ملز چودہ ہزار من سستا آٹا فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ ہم خوش گمانی کرتے ہوئے صرف چوتھائی آٹے میں کھانچے کا حساب لگائیں تو روزانہ دس کلوگرام کے چودہ ہزار تھیلے غتربود ہو رہے ہیں ۔اس یومیہ موج میلے میں فرنٹ مین کے طور پر نیک نام سیاستدانوں سے لیکر صوبائی وزیر کے رشتے داروں کے نام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ریاست روزانہ کی بنیاد پر غریب تر اور اسے چلانے والے روزانہ کی بنیاد پر امیر تر ہو رہے ہیں۔ یہ تو صرف ایک ضلع کی کہانی ہے جبکہ اس پورے صوبے میں بیالیس اضلاع ہیں۔