معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
یہ مسافر تو مجبور محض ہے
بارہا ارادہ کیا کہ بلاوجہ تنقید کے تیر چلانے والے قارئین کے الزامات کا جواب نہ دیا جائے اور خاموشی اختیار کی جائے مگر ہم بے وصف لوگوں کے ارادے بھی ان کی توبہ جیسے ہوتے ہیں‘ جو قائم رہنے کے بجائے ٹوٹتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جنت نصیب کرے نوابزادہ نصراللہ خان کو‘ وہ سیاسی اختلافات میں مروت کی آخری نشانیوں میں سے ایک تھے۔ دھیمے لہجے میں اختلاف کرنے اور مدلل طریقے سے جواب دینے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ دورانِ تقریر ایسی مہذب زبان استعمال کرتے کہ اب گزرے زمانے کی بات لگتی ہے۔ وہ مقررین کے اس قبیل کے آخری چراغ تھے جس میں سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ، نواب بہادر یار جنگ، مولانا ظفر علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور شورش کاشمیری کے نامِ نامی شامل ہیں۔ مجھے ان میں سے صرف موخر الذکر شورش کاشمیری کو سننے کا شرف حاصل ہے‘ باقی سب بڑے لوگ میری پیدائش یا ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اس دنیا سے جا چکے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ کو کئی بار سننے کا اتفاق ہوا۔ آخری بار انہیں ملتان میں چوک کچہری میں اس طرح سنا کہ سٹیج نیچے چوک پر تھا اور یہ عاجز اوپر فلائی اوور پر کھڑا نوابزادہ صاحب کو سن رہا تھا۔ کیا بہاؤ تھا اور کیا روانی تھی۔ عمر کے اثرات نے خطابت کی بلند آہنگی کو ضرور متاثر کیا تھا مگر الفاظ کا چنائو‘ شعروں کا انتخاب‘ محاوروں کا استعمال‘ سلیس اردو کا جلترنگ اور سامعین کو مسحور کرنے کا فن۔ سب چیزوں نے مل کر جو شے تخلیق کی تھی وہ اس خطاب کو سیاست سے نکال کر ادب میں لے آئی تھی۔
اس آخری تقریر سے عرصہ پہلے ایک اور تقریر کے دوران نوابزادہ نصراللہ خان نے ایک شعر سنایا‘ جو دل کو چھو گیا اور روح میں کھب گیا۔ بعد ازاں پتا کیا تو علم ہوا کہ یہ شعر ریاض خیر آبادی کا ہے:
جامِ ہے توبہ شکن‘ توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
نوابزادہ نصراللہ خان کیا رخصت ہوئے‘ ہماری سیاست سے مروت‘ تحمل‘ بردباری اور درگزر رخصت ہوئے اور گفتگو و تقریر سے شرافت‘ احترام‘ تہذیب اور سلاست ناپید ہو گئی۔ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی۔ بات ہو رہی تھی وعدہ نبھانے اور توبہ پر ثابت قدم رہنے کی۔ ہم جیسے بے وصف اور بے ہنرلوگوں کی تو اوقات ہی کیا کہ وعدوں اور توبہ پر پورے اتر سکیں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ سے منسوب ہے کہ ”میں نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے‘ نیتوں کے بدل جانے اور ہمتوں کے پست ہو جانے سے‘‘۔ اب ہم کس قطار شمار میں ہیں کہ اپنے وعدوں پر اعتبار کریں؟
کئی بار ارادہ کیا کہ اور کچھ کروں یا نہ کروں مگر کم از کم قارئین کی طرف سے کیے گئے ذاتی اعتراضات کا جواب نہیں دینا۔ اس ارادے پر کچھ عرصہ تو قائم رہتا ہوں مگر پھر کوئی نہ کوئی قاری اس عاجز کے ارادے کو ملیا میٹ کر دیتا ہے۔ ہر بار اس ارادے کے ٹوٹنے میں جہاں اس عاجز کا قصور ہے وہیں اس قاری کو بھی داد دینا پڑے گی جو اپنے اعتراض کے زور پر ارادے خاک میں ملا دیتا ہے۔ کالم نگار کی تحریر پر اعتراض کرنا بہرحال قاری کا حق ہے‘ خواہ وہ اخبار انٹرنیٹ پر بالکل مفت ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو کہ وہ کم از کم اس پر اپنا قیمتی وقت تو صَرف کر رہا ہوتا ہے۔ یہ اعتراض نظریاتی بھی ہو سکتا ہے اور سیاسی بھی۔ کالم نگار کی کسی خلاف از واقعہ تحریر پر بھی ہو سکتا ہے اور جائز حد تک کالم نگار کی ذات پر بھی۔ لیکن جب معاملہ غیر منطقی‘ غیر حقیقی اور غیر ضروری حد تک ذاتی ہو جائے تو پھر بھلا ارادے کی کیا مجال ہے کہ قائم رہ سکے؟ جب بات اعتراض کی حد سے نکل کر بہتان تک جا پہنچے تو پھر خاموشی کا مطلب ہے کہ آپ نے یہ الزام تسلیم کر لیا ہے یا آپ کے پاس اب کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اب ایسے میں ارادے کو ایک طرف رکھتے ہوئے جواب نہ دیا جائے تو پھر آپ ہی بتائیں کہ کیا کیا جائے؟
گزشتہ دنوں امریکہ سے لکھے گئے ایک کالم پر قاری کو اور کچھ نہ سوجھا تو مجھے ایک ای میل لکھ ماری۔ ترجمے میں شاید وہ مفہوم پوری طرح ادا نہ ہو سکے‘ اس لیے پہلے اس کا اصل متن، جو انگریزی میں تھا‘ لکھ رہا ہوں:
Lucky man, spending life in America & writing columns for Pakistani people. Amazing, very genius, May Allah SWT keep your hypocrisy intact like other journalists.
(خوش قسمت آدمی‘ زندگی امریکہ میں گزار رہے ہو اور لکھ پاکستان کے عوام کے لیے رہے ہو۔ حیران کن‘ بہت ہی ہوشیار۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ دیگر صحافیوں کی طرح تمہاری منافقت کو بھی قائم و دائم رکھے)
اب آپ ہی بتائیں اس ای میل سے ارادے کا خانہ خراب ہونا چاہئے یا نہیں؟ ممکن ہے کچھ قارئین کا خیال ہو کہ اس قسم کی فضول اور بے سروپا ای میل کو ایک کلک سے ڈیلیٹ کر دینا چاہئے اور ایسی تحریر کو قطعاً دل پر نہیں لینا چاہئے یا ”جوابِ جاہلاں باشد خاموشی‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے یہ سمجھا جائے کہ ایسی کوئی ای میل مجھے موصول ہی نہیں ہوئی؛ تاہم میرا خیال ہے کہ اگر قاری کو غلط فہمی ہے تو وہ دور کی جائے اور اگر وہ جان بوجھ کر بہتان لگا رہا ہے تو اسے جواب دیا جائے تاکہ روز کی کِل کِل ختم ہو۔ لہٰذا اس قسم کی ای میلز اور ان میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب تو بنتا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس عاجز کے دل میں کبھی بھی پاکستان کے علاوہ کہیں مستقل رہنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ ہاں! ایک آوارہ گرد ہے جو اس فقیر کے اندر موجود ہے اور وہ اسے ہمہ وقت سفر پر بھی اکساتا ہے اور جہاں گردی پر بھی تیار رکھتا ہے۔ زندگی کا ایک حصہ سفر اور مسافرت میں گزر گیا ہے اور اللہ رحمن و رحیم سے دعا ہے کہ وہ محتاجی اور معذوری سے محفوظ رکھے تو یہ عاجز اپنے مالک کی تخلیق کردہ اس دنیا کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے مزید سفر پرکمربستہ بھی ہے اور ہمہ وقت تیار بھی۔ لیکن ہر سفر کا اختتام ملتان جا کر ہوتا ہے جہاں اس مسافر کا منتظر ایک گھر ہے جو اللہ کی اس وسیع ترین کائنات میں اس فقیر کا واحد ملکیتی گھر ہے اور ٹھکانہ بھی۔ لیکن اس بات سے قطع نظر کہ میرا ملتان کے علاوہ کہیں اور گھر نہیں‘ کیا پاکستان سے باہر زندگی گزارنے والا پاکستان کے عوام کے بارے سوچنے‘ بولنے یا لکھنے کا حق نہیں رکھتا؟ جو لوگ پاکستان میں رہنے والے 22کروڑ افراد کی جانب سے کل ملکی ایکسپورٹ سے حاصل کردہ 25ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے مقابلے میں 31 ارب ڈالر (2021) کا زرمبادلہ بھجوائیں اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچائیں‘ کیا عجب کہ وہ رقم تو بھجوا سکتے ہیں لیکن وہ پاکستان یا پاکستانی عوام کے بارے میں لکھ نہیں سکتے۔
میں امریکہ میں زندگی نہیں‘ زندگی کے محض چند روز گزار رہا ہوں اور بس۔ یہ مسافر پاکستان کے علاوہ مستقلاً کسی اور ملک میں رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور یہ کوئی احسان نہیں‘ دراصل اس ملک نے اس مسافر کو اتنی سہولتیں‘ آسانیاں اور آسائشیں دی ہوئی ہیں کہ بعض چیزوں سے تنگی کے باوجود اسی ملک میں مرنے کے لیے دعاگو ہوں اور اسی مٹی میں دفن ہونے کی خواہش ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تواس ملک نے اس مسافر کی عادتیں ہی اتنی خراب کر دی ہیں کہ کوئی اور ملک وہ لاڈ اور نخرے اٹھا ہی نہیں سکتا جن کی اس فقیر کو پاکستان میں سہولت ہے۔ آپ بے شک اس ملک سے میری محبت اور لگاؤ کو مجبوری سمجھ لیں۔ ایسی صورت میں بھلا مجبور لوگ اپنی مجبوریوں کے دائرے سے باہر کہاں نکل سکتے ہیں؟ اور اس مسافر کا بھی یہی حال ہے۔