عمران خان کو خطرہ

پنجاب بلکہ پاکستان میں جاری اقتدار کی جنگ بالآخر کس نتیجے پر پہنچے گی‘کون فاتح قرار پائے گا اور کس کے حصے میں ناکامی آئے گی‘ اس بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا آسان نہیں‘لیکن عمران خان نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اپنے حریفوں کو جو یہ کہہ کر خبردار کیا تھا کہ اگر اُنہیں نکال باہر کیا گیا‘تو وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے‘اس کو انہوں نے سچ کر دکھایا ہے۔ان کی اس دھمکی کو اس وقت تو دیوانے کی بڑ قرار دے کر نظر انداز کر دیا گیا یا یہ کہیے کہ چٹکیوں میں اڑا دیا گیا مگر اب یہ حقیقت بن کر اپنے آپ کو منوا رہی ہے۔خان صاحب کی حالت اُس وقت پتلی تھی‘ ضمنی انتخابات میں ان کی جماعت شکست پر شکست کھاتی جا رہی تھی۔ معیشت سخت دبائو میں تھی‘ آئی ایم ایف سے معاہدہ کھٹائی میں پڑ چکا تھا‘ پٹرول سستا کر کے جو رسک لیا گیا تھا‘ اُس نے مشکلات میں شدید اضافہ کر دیا تھا‘ اندرونی اور بیرونی ہر محاذ پر حکومت دبائو کا شکار تھی۔عمران خان کا طلسم ٹوٹتا جا رہا تھا‘مقبولیت کی حفاظت ممکن نہیں رہی تھی‘پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ آئندہ انتخابات میں اس کی ٹکٹ کی مانگ بڑھ گئی تھی‘ تحریک انصاف کے اراکینِ اسمبلی اپنے علاقوں میں جانے سے گریزاں تھے‘ وہ بڑے بڑے جغادری جو اپنے انتخابی حلقوں کو باپ‘ دادا کی میراث سمجھتے تھے‘گھبرائے ہوئے تھے کہ وہ اپنے رائے دہندگان کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ان کی بڑی تعداد تحریک انصاف سے جان چھڑانے اور مسلم لیگ (ن) کی چادر اوڑھنے کے لیے بے تاب تھی‘ اراکینِ اسمبلی میں بغاوت پھوٹ رہی تھی اور اپنی پارٹی پر خان صاحب کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی تھی‘عمران خان کا اقتدار ان کی پیٹھ کا بوجھ بن گیا تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ آئندہ انتخاب میں ان کی جماعت سمٹ کر رہ جائے گی‘ سیاست میں ان کا وجود برقرار بھی رہا تو ایک پریشر گروپ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ اُنہیں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پڑے گا اور باقی عمر اسی صحرا میں اذانیں دیتے صرف ہو جائے گی۔ جونہی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی‘عمران خان سابق وزیراعظم بنے‘ان کے مخالفوں نے اقتدار سنبھالا‘ لیکن معیشت سنبھلتی نظر نہ آئی‘ہوا کا رخ تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔احتجاج کے جس سلسلے کا آغاز ہوا‘ وہ اب تک جاری ہے۔ دیوانے کسی نہ کسی طور اب تک سڑکوں پر ہیں۔خود چین سے بیٹھ رہے ہیں‘ نہ اپنے حریفوں کو چین لینے دے رہے ہیں۔گزشتہ چند ماہ کے دوران بہت کچھ بدلا ہے اور آئندہ چند ماہ کے دوران بھی بہت کچھ بدلنے کی اُمید ہے۔عمران خان چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں‘ زخمی ہونے کے باوجود آرام سے نہیں بیٹھے۔ فوری انتخابات کے لیے تحریک چلائے ہوئے ہیں۔ان کے نزدیک ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے انتخاب۔ انہیں اُمید ہے کہ وہ دوتہائی اکثریت حاصل کر کے آئیں گے‘اور قوم کی تقدیر بدل ڈالیں گے‘ ان کی اس بات کی تائید کرنے والے سرگرم ہیں اور بہرقیمت اُن کا ساتھ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
عمران خان کو انتخابات کب نصیب ہوں گے‘ اور اس میں اُن کی کارکردگی کیا ہو گی‘کیا وہ دوتہائی اکثریت حاصل کر کے لوٹیں گے یا اُن کی حمایت کا دائرہ سمٹ جائے گا۔اس بارے میں ہر ایک کا اندازہ اپنا ہو سکتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات یقینی نہیں ہوتی‘ کوئی حرف بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔اگر اُن کی برسوں کی سیاسی جدوجہد کو ان کے اقتدار کے تین چار برسوں نے شدید نقصان پہنچا دیا تھا‘ تو ان کی موجودہ مقبولیت بھی عارضی ثابت ہو سکتی ہے‘ان کے حریف جو اقتدار میں ہیں گزشتہ انتخابات میں60فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے دکھا چکے ہیں‘وہ ایک بار پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں‘ عمران خان کو حیران کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ تو اُس وقت کی بات ہے جب انتخابات ہوں گے‘اس وقت تو ان کے حصول کی جنگ جاری ہے‘ اور عمران خان سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔سڑکوں پر جو دبائو انہوں نے بڑھایا تھا وہ کام نہ آیا‘ تو انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ تو ان کی اپنی تخلیق ہیں‘ انہوں نے تو ان کی ہاں میں ہاں ملانا ہی تھی‘ پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اور مستقبل کی امیدوںسے لبریز صاحبزادے مونس الٰہی بھی پیچھے نہ رہے۔ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس لکھ کر اُن کے حوالے کر دی کہ جب چاہیں گورنر پنجاب کو ارسال کر دیں۔عمران خان نے 23 دسمبر کی تاریخ بھی مقرر کر دی‘ کہ اس دن پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنروں کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مشورہ پہنچا دیا جائے گا۔وفاقی حکومت اگرچہ دبائو میں آنے سے انکاری تھی اور اس کے متعلقین اور متوسلین بار بار کہہ رہے تھے کہ وہ صرف ان میں انتخاب کرائیں گے۔وفاق اور دوسرے دو صوبے ہر گز کوئی اثر قبول نہیں کریں گے‘ لیکن عمران خان اور ان کے حواریوں کو یقین تھا کہ جب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابی ریلا آئے گا تو وفاقی حکومت کے ارادوں اور منصوبوں کو بہا لے جائے گا۔خان صاحب نے 23دسمبر کی تاریخ کا اعلان یہ سوچ کر کیا تھا کہ نئے انتخابات رمضان المبارک کی آمد سے پہلے پہلے منعقد ہو جائیں گے لیکن پنجاب میں گورنر نے وزیراعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کر دی۔ وزیراعلیٰ اور سپیکر اُن کی مقرر کردہ تاریخ پر اس کے لیے آمادہ نہ ہوئے تو انہوں نے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔وہ بھاگم بھاگ لاہور ہائی کورٹ پہنچے‘ وہاں سے گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کرایا لیکن اس کی قیمت یہ ادا کی کہ 11جنوری تک اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس نہ دینے کی تحریری یقین دہانی کرا دی۔چودھری پرویز الٰہی کا اقتدار بحال ہو گیا لیکن عمران خان کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ چکا۔ان کی مقرر کردہ تاریخ کو اسمبلیاں تحلیل نہیں ہو سکیں۔11جنوری کو عدالت میں جو ہو گا‘ اس کے بعد ہی معاملہ واضح ہو سکے گا۔ اگر عدالت نے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند کر دیا تو معاملہ مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ اگر ایسا نہ کر پائے تو بھی خان صاحب کا منصوبہ تلپٹ ہو جائے گا۔ رمضان المبارک کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی بھی منصوبہ بندی‘ منصوبہ ساز کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔عمران خان کا جوش و جذبہ اپنی جگہ لیکن ان کی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آ رہیں اگر ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالنے کے بجائے وہ سیدھی انگلیوں کو استعمال کرنے پر آمادہ ہو جائیں‘ اپنے حریفانِ سیاست کو تسلیم کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخ اور ان کے انتظامات پر ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر لیں تو یقین کریں یہ ان کے لیے خسارے کا سودا نہیں ہو گا۔ بصورتِ دیگر تو وہ آگے بڑھ کر پیچھے ہٹتے رہیں گے۔ اُنہیں احساس ہونا چاہیے کہ جہاں اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی ذمہ داری ان کی ہے‘ وہاں کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کا ذمہ دار بھی کوئی اور نہیں ہے۔اپنے حریفوں میں اضافہ کرنے کا شوق اُن کی مشکلات کو بڑھاتا رہا ہے‘ اور بڑھا رہا ہے۔اُن کے مخالف مطمئن ہیں کہ ان کے حصے کا کام بھی وہ خود ہی کر گزریں گے‘ اور اپنے ساتھ وہ کر لیں گے‘ جو ان کے حریف کرنا چاہتے ہیں۔عمران خان کو عمران خان سے شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔