مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
تین یادگار دن
میں نے بہت دنوں کے بعد خود کوفرحاں و شاداں پایا ۔مجھے یہ خوشی عشق آباد ویب سائٹ کے زیر اہتمام منعقدہ سہ روزہ جشن جَون ایلیا کی تقریبات میں شرکت سے حاصل ہوئی جہاں ادبی، ثقافتی اور سماجی موضوعات پر دانشوروں کے خیالات سننے کو ملے۔موسیقی کی محفل بھی ہوئی اور ایک پاکستانی مشاعرہ بھی ! میں اگر صرف ان موضوعات ہی کا ذکر کروں جن کے حو الے سے یہ محافل منعقد ہونا تھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ فیسٹول کس قدر جامع تھا میرے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ میں ان تمام محافل میں شرکت کر پاتا میں، آپ سے صرف وہ موضوعات شیئر کرتا ہوں جو شیڈول کئے گئے تھے بس اب آپ سنتے جائیے، موضوعات کیا صرف ان چند شخصیات کے نام ہی سن لیں جنہوں نے اس جشن میں مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا ۔مثلاً انور مقصود، افتخار طارق، اصغر ندیم سید، کشور ناہید، حماد غزنوی، اداکار سہیل احمد ، اداکار منور سعید، حامد میر، سہیل وڑائچ، فواد حسن فواد، ناصرہ زبیری، علی قاسمی، شبر زیدی، عقیل عباس جعفری، احمد عطا اللہ، وجاہت مسعود، اجمل جامی، نجیب جمالی، حمید شاہد، شکیل جاذب، وجیہ ثانی، حیدر عباس رضوی، ان کے علاوہ مزاح نگار حسین شیرازی،گل نوخیز اختر، ناصر ملک، شاہد ظہیر سید، وحید الرحمان، صوفیہ بیدار نیز وہ سب جن کے نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہے جشن جون ایلیا کے مہتمم عباس تابش کے بقول اس جشن میں جون ایلیا کے سوا سب شریک ہوئے۔
یہ جشن کیا تھا مختلف قسم کے موضوعات کی کاک ٹیل تھی، اس میں محفل موسیقی بھی تھی طنز ومزاح کا سیشن بھی تھا جبکہ عظیم الشان مشاعرہ بھی تھا ،ایک سیشن معیشت پر بھی تھا ، سیاسی صورت احوال کے پس منظر میں بھی ایک سیاسی سیشن کا موضوع ’’کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے‘‘ رکھا گیا تھا حامد میر نے اپنی گفتگو کے آغاز میں میرا پورا شعر پڑھ دیا جس میں سے یہ موضوع ’’کشید‘‘ کیا گیا تھا ۔
شام ہوتے ہی عطا کیوں ڈوبنے لگتا ہے دل
کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے اور ناگہاں ہونے کو ہے
لاہوریوں اور دوسرے شہروں سے آئے ہوئے ادیبوں اور دانشوروں کے تین دن اس جشن جون ایلیا کے ہمہ رنگ سیشنز کی بدولت بہت خوشگوار اور سوچ بچار کومہمیز دینے والے تھے مجموعی طور پر ان تقریبات کاماحصل امید افزا تھا۔ جون کے بارے میں بہت خوبصورت باتیں ہوئیں ان کی شاعری کے تمام پہلو بھی سامنے آئے حتیٰ کہ سیاست دان حیدر عباس رضوی کی باتیں سن کر جون کی پوری شخصیت سامنے آئی، اس دوران میں نے محسوس کیا کہ سیاست دانوں کی شعرو ادب سے وابستگی دیرپا ہو تو منفی رجحانات پر مثبت رجحانات غالب آ سکتے ہیں۔ اس جشن میں کچھ ایسی باتیں بھی ہوئیں جو مایوس کن تو نہیں مگر ممنوع اس حوالے سے تھیں کہ بقول پنجابی کے صوفی شاعر ’’خاصوں‘‘ کی باتیں ’’عاموں‘‘ میں نہیں کرنا چاہئیں اور یہاں عوام بھی کثیر تعداد میں موجود تھے ،تاہم اداکار سہیل احمد نے اپنی باغ وبہار گفتگو کے دوران سنجیدہ انداز میں بہت مثبت باتیں بھی کیں۔
میں نے اس جشن کے شرکاء میں کشور ناہیدکو بھی بہت عرصے کے بعد دیکھا ،میری طرح وہ بھی اولڈ ایج میں ہیں مگر وہ تاحال ماشااللہ بہت باہمت اور نظریات کے حوالے سے جواں سال ہیں، یہی صورتحال افتخار عارف کی بھی ہے گزشتہ برس ان کا ایک آپریشن ہوا تھا جس کی وجہ سے چلنے پھرنے کے دوران انہیں پرابلم محسوس ہو رہا تھا وہ لاغر ہوئے ہوں تو ہوئے ہوں مگر ان کی شاعری تاحال بہت توانا ہے ۔میرے ذاتی خیال کے مطابق عصر حاضر کے سب سے بڑے شاعر ظفر اقبال ہیں اور ان کے بعد افتخار عارف ہیں جو پوری تخلیقی توانائیوں کے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہیں اور اللہ انہیں ہمیشہ اسی طرح توانا رکھے ۔
آخر میں جون ایلیا کی ایک غزل جو ان کی دوسری غزلوں کی طرح بہت زیادہ مقبول تو نہیں لیکن اس میں وہ مختلف طرز سخن والا جون موجود ہے جو ان کی بنیادی پہچان سمجھی جاتی ہے ذیل میں یہ غزل ملاحظہ فرمائیں۔
اسی میں ہو چکا اب کیا نہ چاہوں
سزا ہونے کی ہے ہونا نہ چاہوں
تو میرے بعد رکھے گا مجھے یاد
میں اپنے بعد اک لمحہ نہ چاہوں
جدھر دیکھو ادھر بے پردگی ہے
کدھر دیکھوں کہ میں پردہ نہ چاہوں
لبوں پر ہے بپا حرفوں کی محفل
ابھی گفتار میں آیا نہ چاہوں
جہانِ دید میں نایاب ہو جا
مری جاں میں تجھے بچھڑا نہ چاہوں
ہیں سب رستے پشیمانی کے رستے
میں چلتا جائوں پر رستہ نہ چاہوں
نہ کوئی چاپ زندہ ہے نہ دستک
تو کیا میں گھر میں دروازہ نہ چاہوں
ہے اب تو سامنے تیرا اک انبوہ
بھلا اب کیوں ترا آنا نہ چاہوں
خیالیں کتنے ہیں یہ شب کے انداز
کہیں میں کوئی اندازہ نہ چاہوں
وہ بیٹھا ہے دریچے بند کرکے
میں دیواروں کو بے پروانہ چاہوں
جو بولے جائو تو رشتے بنیں گے
سو کیا چاہوں جو چپ رہنا نہ چاہوں
چلا ہونٹوں سے مرغولہ دھویں کا
ٹھہر جا! میں ابھی مرنا نہ چاہوں
سخن کی موت ہے یارو سخن بیچ
میں بستی میں کوئی لب وا نہ چاہوں
جو اگلے پل تلک جینا ہوا تب
بھلا کیسے کوئی وعدہ نہ چاہوں
نہ کیوں چیخوں کہ ہے اک شوربرپا
بھلا میں، اور سناٹا نہ چاہوں