مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
خواجہ سرا…..!
میں اس روز بہت مصروف تھا جب برادرم عباس تابش کا مجھے پیغام ملا کہ محمد اویس ملک کے شعری مجموعہ ’’تیرا حکم تھا کہ سفر کروں‘‘کی تقریب رونمائی میں آپ ضرور آئیں۔ اس روز کی میری مصروفیات میں ایک اپنے ڈاکٹر سے میری اپائنمنٹ بھی تھی ،میں نے سب کام جلدی جلدی نمٹائے تاکہ بروقت پہنچ سکوں ۔اس کے باوجود میں تقریب کے اختتام کے قریب پہنچا ،اس وقت محمد اویس ملک اپنی نظم ’’خواجہ سرا‘‘ سنا رہے تھے ،مجھے یہ موضوع بہت منفرد لگا اور ساری نظم کے دوران دکھ کی ایک لہر بھی میرے اندر ہی گردش کرتی رہی میں یہ نظم آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں ، آپ بھی سنیے:
خواجہ سرا
چھیل چھبیلا /ٹھمک ٹھمک کر بیچ سڑک میں /آتی جاتی ہر گاڑی سے/بھیک کی پونجی اچک رہا ہے/فقرے کستے کالج کے نوخیز جوانوں سے/ہنس ہنس کر باتیں کرتا مٹک رہا ہے۔
چوراہے کاسرخ اشارہ بے شرمی سے گھور رہا ہے /لال پراندہ لپک لپک کر /نقلی کولھوں کو مس کرتا لٹک رہا ہے /جعلی ڈھلوانوں سے وہ رنگین دوپٹہ /ایک طرف کو ڈھلک رہا ہے /کالی گاڑی والا کتنی بے زاری سے ہاتھ کو اس کے جھٹک رہا ہے۔
پیروں میں گھنگرو چھنکاتا / ردانہ چہرے پر مل کر جھوٹ کا غازہ /نسوانی رنگوں میں لتھڑا ایک ہیولا /جسم اور جنس کے گھن چکر میں بھٹک رہا ہے۔
اب وہ تھوڑا دم لینے کو/ زرد اشارے کے سائے میں آ بیٹھا ہے /زرد اشارہ اس منظر پرافسردہ ہے آج بھی اس سے پوچھ رہا ہے۔
’’لولے لنگڑے اندھے بہرے کتنے ہی معذور یہاں پر روز آتے ہیں تم کیسے معذور ہو جس کی جنس نہیں ہے‘‘؟
طیش میں آ کر وہ کہتا ہے / ’’نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے بالکل / میں اک آدھا مرد ہوں لیکن / اپنی آدھی جنس کہیں پر کھو بیٹھا ہوں‘‘ /زرد اشارہ طعنہ زن ہے / گر تم آدھے مرد تھے تو پھر / آخر تم نے عورت ہی کا روپ کیوں دھارا‘‘؟
زہر آلود نگاہوں سے وہ زرد اشارے کو تکتا ہے / اور تیکھے انداز میں یوں گویا ہوتا ہے ؟ /’’ جنس زدہ لوگوں میں گھر کر زندہ رہنا /کب آساں ہے؟/عورت ہی کا روپ ہے جس سے/ہوس کے مارے ان لوگوں کو دلچسپی ہے ۔
عورت ہی کی مجبوری کا مول لگا کر؍ ان لوگوں کو حظ ملتا ہے؟/تم کیا جانو پیٹ کا یہ دوزخ بھرنے کو/کیسے خود کو بیچ کے یہ کاغذ ملتا ہے۔
زرد اشارہ رو پڑتا ہے/روتے روتے پھر کہتا ہے/یہ بتلاؤ اتنی ذلت اور حقارت/آخر کیسے سہہ لیتے ہو/ سچ سچ کہنا ایسے بھی انسان تو ہوں گے /جن سے تم نے انساں ہونے کے ناتے ہی /کچھ تو عزت پائی ہوگی؟
کجراری آنکھوں سے پونچھ کے اپنےآنسو/اک تلخی سے وہ کہتا ہے /ہم سے اسفل بے توقیروں کو عزت و تکریم سے کیا ہے/شکر خدا کا مفت کی سانسیں ملی ہوئی ہیں/ہم کو تو اتنا بھی غنیمت ہے کہ ہم نے /اپنی اپنی ان دیکھی ماؤں کی مقدس/کوکھ میں پورے نو مہینے عزت پائی۔
سبز اشارہ جل اٹھا ہے/دور کسی گاڑی سے اک اخبار کا ٹکڑا/بیچ سڑک میں آن گرا ہے/سرکاری بھرتی کی اک تشہیر ہے جس میں/مرد اور عورت دونوں ہی کو اہل لکھا ہے/روند کے اپنے پیر کے نیچے یہ تحقیر آمیز تراشہ /چھیل چھبیلا /ٹھمک ٹھمک کر بیچ سڑک میں /آتی جاتی ہر گاڑی سے بھیک کی پونجی اچک رہا ہے۔