معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
دائرے کے مسافر
گو کہ عثمان بزدار مجھ سے بہت بعد میں ایمرسن کالج میں داخل ہوئے اور اسی حساب سے وہ میرے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے کئی برس بعد یونیورسٹی میں داخل ہوئے مگر وہ ان دونوں تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہنے کی وجہ سے بہرحال میرے دل کے قریب ہیں اور ایمانداری کی بات ہے کہ انہوں نے ان دونوں تعلیمی اداروں میں میرے ہم مکتب ہونے کا حق بڑی اچھی طرح نبھایا ہے اور وہ بارہا میری مشکل کے دوران مدد کو بھی آئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں خوش و خرم رکھے جب مجھے کبھی بحث کے دوران پی ٹی آئی کے ضدی سے ضدی قسم کے کھلاڑی سے پالا پڑ جاتا تھا اور اسے دلیل یا بحث سے قائل کرنے میں بری طرح ناکامی ہو رہی ہوتی تھی تو میرا یہ دوست میرے بڑے کام آتا تھا۔ عمران خان کی ساڑھے تین سال سے زائد عرصے کی حکومت کے دوران ان کے بلند و بانگ دعوؤں کے برعکس والی کارکردگی پران کے کسی چاہنے والے سے بات ہوتی تو خان صاحب کی تقریروں‘ مذاکروں اور بیانات سے متاثرہ اس شخص کو عقل کی بات سمجھانا اور قائل کرنا جب ناممکن ہو جاتا ہے (جو اکثر اوقات ہو جاتا ہے) تو میں آخری ہتھیار کے طور پر یہ سوال کر دیتا ہوں کہ آپ صرف یہ بتا دیں کہ عمران خان کی گیارہ کروڑ سے زیادہ آبادی والے صوبے کو عثمان بزدار جیسے وزیراعلیٰ کے سپرد کرنے کی کوئی ایک معقول وجہ کیا ہے؟ آخر کیا ہوا جو خان صاحب نے پنجاب کو ‘جو آبادی کے اعتبار سے دنیا کے صرف چودہ ممالک سے کم آبادی کا حامل صوبہ ہے‘ عثمان بزدار کے حوالے کر دیا؟ تو مخالف کی زبان کی مشین گن کو فوری طور پر بریک لگ جاتی ہے۔
زیادہ تیز طرار اور کٹھ حجت تو اس بات کو ایک سیکنڈ میں تسلیم کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہاں! بس یہ ایک بات ہے جو ہمیں بھی سمجھ نہیں آئی‘ تاہم آپ اس کو چھوڑیں۔ ایک آدھ غلطی تو بڑے سے بڑے لوگوں سے بھی ہو جاتی ہے اگر خان صاحب سے اپنی سیاسی زندگی میں یہ ایک غلطی ہو بھی گئی ہے تو کون سی بڑی بات ہے؟ کچھ لوگ اس دلیل کے سامنے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی‘ مگر لاجواب ضرور ہو جاتے ہیں۔ کم از کم ہمارے دوست عثمان بزدار والی دلیل خواہ وقتی طور پر ہی سہی مگر ہمیں بحث کے میدان میں سرخرو ضرور کروا دیتی تھی۔ ہم مشترک مادرِ علمی کے طفیل عثمان بزدار صاحب کو اپنا کالج فیلو اور یونیورسٹی فیلو سمجھ کر ان سے جو محبت کرتے ہیں انہوں نے ہماری اس محبت کے جواب میں ہمیں اپنی وزارت اعلیٰ کے سبب بحث میں مخالفین کو چاروں شانے چت کرنے کی جو سہولت فرمائی تھی ہم تا زندگی ان کے مشکور رہیں گے۔
کل شاہ جی سے فون پر بات ہو رہی تھی باتوں ہی باتوں میں اللہ جانے کس طرح عثمان بزدار کا ذکر آ گیا۔ شاہ جی عثمان بزدار پر تبرا کرنے ہی لگے تھے کہ میں نے انہیں روک دیا اور کہا کہ بے شک وہ پنجاب کی تاریخ کے سب سے فارغ وزیراعلیٰ تھے۔ بلاشک و شبہ وہ گیارہ کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے کے لیے ایک نہایت ہی غیرمناسب انتخاب تھے۔ اس بات سے بھی کوئی اختلاف نہیں کہ وہ انتہائی نکمی انتظامی کارکردگی کے باوجود دیگر اقسام کی کارکردگیوں میں کافی ہوشیار تھے اور اس بات پر پی ٹی آئی کے محبان کا بھی اجماع ہے کہ وہ عمران خان سے اپنی تمام تر بے لوث اور غیر مشروط وفاداری نبھاتے‘ ان کے ہر قدم کی اندھی تقلید اور ان کے ہر قول کی بلا سوچے سمجھے تائید کے باوجود صرف اس مسئلے پر آ کر خان صاحب کے اس فیصلے کی مذمت نہ بھی کریں تو بہرحال تعریف وتوصیف ہرگز نہیں کر پاتے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود عثمان بزدار میرے اس حد تک محسن ضرور ہیں کہ میں نے صرف ان کی ذات کی مثال کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے ان دیوانوں سے بحث کا دنگل جیتا ہے جو دنیا کی کسی بات سے اور دلیل سے زیر نہیں ہوتے تھے۔ ان کی وزارتِ اعلیٰ تو سمجھیں ہر بحث میں برہانِ قاطع ثابت ہوتی تھی۔
شاہ جی عثمان بزدار کا مجھ پر یہ احسان سن کر کہنے لگے: ادھر ہمارے ساتھ بھی ہر بحث کے آخر پر یہی ہو رہا ہے اور پی ٹی آئی والے مجھے آخر میں جا کر ایک ایسی دلیل سے چاروں شانے چت کرتے ہیں کہ اس کا جواب ہی نہیں بن پا رہا۔ بحث کے دوران خان صاحب کے یوٹرن والی عادت کا ذکر کریں۔ ان کے بلند و بانگ دعوؤں کی بات کریں اور ان کی حقیقی کارکردگی کا ذکر کریں‘ ان کی کرپشن کے خلاف تقریروں اور کرپٹ لوگوں سے دلی نفرت کا ذکر کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی اینڈ کمپنی اور اسی قبیل کے دیگر نیک نام‘ لوگوں کی ان کی حکومت میں شمولیت کی دلیل دیں‘ چھوٹی کابینہ کا لارا لگا کر ساٹھ رکنی کابینہ بنانے کی یاد دلائیں‘ ہم لوگوں کو ہالینڈ کے وزیراعظم کی سائیکل سواری یاد کروا کر خود ہیلی کاپٹر پر چڑھنے والی بات پر شرمندہ کریں‘ کرپشن کے خلاف بلند و بانگ دعوؤں کی یاد دلاتے ہوئے ندیم بابر‘ شہزاد اکبر‘ ڈاکٹر فیصل اور تابش گوہر جیسے نابغوں کی آمد اور قوم کو چونا لگا کر پتلی گلی میں سے نہایت خاموشی سے نکل جانے کی بات یاد کروائیں تو اس تمام تر تفصیلی دو نمبریوں کا جواب یہ ملتا ہے کہ چلیں جی ٹھیک ہے عمران خان نے کچھ غلطیاں بھی کی ہوں گی اور چند کمپرومائز بھی کئے ہوں گے لیکن اب کیا انہی دو پہلے والوں میں سے کسی کو ووٹ دے دیں؟میاں نواز شریف اور زرداری کو دوبارہ لے آئیں؟ انہی چوروں‘ لٹیروں اور ملکی دولت لوٹنے والوں کو منتخب کریں؟ شاہ جی یہ بتا کر مجھ سے پوچھنے لگے کہ اب آپ بتائیں بندہ اس دلیل کا کیا جواب دے؟
میں نے کہا: شاہ جی! مطلب یہ ہے کہ ہم اس نظام میں پہلے دو کے ہاتھوں یرغمال تھے اب تین کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ ان تینوں میں سے بہرحال کسی کو ضرور ووٹ دینا ہے اور ان تینوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ پہلے مسلم لیگ( ن) والے یہ سوال کرتے تھے کہ کیا اب زرداری کو ووٹ دے دیں؟ دوسری طرف پیپلز پارٹی والے بھی یہی کہتے تھے۔ اب اس میدان میں ایک تیسرا فریق بھی آ گیا ہے جس کی ذاتی پارسائی کی اتنی دھوم مچی ہوئی ہے کہ توشہ خانہ کی گھڑیوں کی فروخت بھی اس کا بال بیکا نہیں کر سکی۔ میں نے کہا :شاہ جی! اب ہمارے پاس انتخاب کے لیے کسی کی خوبی نہیں بچی بلکہ فریقِ ثانی کی خرابیوں کی زیادتیوں کی بنیاد پر ہم اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم اپنا ووٹ لیڈر کی خوبیوں کی بنیاد پر نہیں ڈالتے بلکہ اس کے مخالف لیڈر کی خرابیوں اور برائیوں کی زیادتی کے باعث اسے ڈالتے ہیں۔ ہم کس اندھیر نگری میں بستے ہیں کہ ہمیں کسی کو اچھے ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ کم برے ہونے کی بنیاد پر منتخب کرنے کی مجبوری آن پڑی ہے۔ مطلب یہ کہ ہم الف کو اس کی خوبیوں کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ ب کی خرابیوں کی وجہ سے منتخب کرنے پر مجبور ہیں۔ ستر کی دہائی میں سیاست کم برائی کے انتخاب کے نظریے کے گرد گھومتی تھی۔ آج پچاس سال بعد یعنی نصف صدی کے بعد بھی ہم اسی جگہ کھڑے ہیں۔