گاؤں بسنے کے انتظار میں

پاکستان تحریک انصاف کے ورکرز پر لاہور میں ہونے والا پولیس تشدد دیکھ کر دل کے اندر سے ایک عجیب سی اداسی اُبھری۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ عوام کو ملک اور اپنے اپنے پسندیدہ حکمرانوں اور لیڈروں کے رومانس میں اسی طرح پولیس کی مار کھاتے اور مرتے ہی دیکھا ہے۔
اچھے دنوں کی امید میں عوام ہر کسی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ وہ اپنے لیڈروں کوتخت پر بٹھا کر‘ دیوتا کا درجہ دے کر انہیں پوجنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے دیوتا کے خلاف وہ کوئی بات نہیں سنتے۔ انسانی پسند‘ ناپسند بڑی خوفناک چیز ہے۔ جو بندہ آپ کو پسند ہو‘ آپ اس کے بارے میں ایک بھی برا لفظ نہیں سن سکتے۔ چلیں‘ عام لوگوں کو چھوڑیں‘ مجھے یاد ہے کہ ڈان اسلام آباد میں بیس‘ اکیس برس پہلے جب بزرگ صحافی برکی صاحب آتے تھے تو کسی کو ان کے سامنے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کمنٹ کرنے کی جرأت تک نہ ہوتی تھی۔ جب بھٹو صاحب وزیراعظم تھے تو برکی صاحب ان کے بڑے قریب سمجھے جاتے تھے۔ برکی صاحب کا ماننا تھا کہ بھٹو اکیلا ہی لیڈر پیدا ہوا تھا۔ ضیاء الدین صاحب تک بھٹو صاحب پر بات کرتے ہوئے کنی کترا جاتے تھے کہ کہیں برکی صاحب ناراض نہ ہو جائیں۔
جب ایک انگریزی اخبار کے سینئر صحافی کا کسی حکمران یا لیڈر پر اتنا یقین تھا تو پھر عام انسان کا کسی لیڈر کی باتوں پر دل و جان سے ایمان لانا کون سا مشکل کام ہے۔ ہماری صحافت میں کئی ایسے بڑے نام رہے ہیں اور شاید اب بھی ہیں‘ جن کی سیاسی محبتیں‘ سیاسی نظریات اور حکمرانوں سے مرعوبیت کی کہانیاں عام ہیں۔ میری اکثر صحافی دوستوں سے بحث رہتی ہے کہ اگر آپ کسی سیاسی پارٹی کی فلاسفی اور لیڈر شپ کے گرویدہ ہیں یا اس کے فین کلب میں شامل ہیں تو پھر آپ صحافی نہیں کہلا سکتے۔ آپ پھر ایک عدد سیاسی ورکر ہیں‘ جو صحافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ اگر ایک صحافی یا اینکر کسی سیاسی لیڈر کی باتوں یا شخصیت سے مرعوب ہے تو بھلا اس نے کیا جرنلزم کرنا ہے۔ مرعوبیت آپ کو صرف اپنے جیسے انسان کا پجاری بنا سکتی ہے‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں اور پھر آپ عمر بھر اس غلامی کا تاج فخر سے سر پر سجائے‘ ہر ایک سے اپنے لیڈر کو فرشتہ ثابت کرنے کے لیے لڑتے رہتے ہیں۔ میں نے یہی سوال فواد چودھری صاحب سے کیا کہ جب ان کی پارٹی کے ورکرز پولیس کے ہاتھوں ماریں کھا رہے تھے تو پارٹی کے وہ لیڈرز کہاں تھے جو کبھی اسلام آباد میں عمران خان کے وزیر تھے یا پنجاب میں بزدار کابینہ کا حصہ تھے۔
جب ورکرز ماریں کھار رہے تھے تب عثمان بزدار کہاں تھے‘ جو ساڑھے تین سال تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے اور اب بھی زیادہ امکان ہے کہ اگر تحریک انصاف کو پنجاب میں اگلی حکومت بنانے کا موقع ملا تو عمران خان کی پہلی چوائس وہی ہوں گے۔ ان کی دوسری چوائس یقینا چودھری پرویز الٰہی ہوں گے جنہیں ایک روز قبل ہی عمران خان نے اپنی پارٹی کا نیا صدر بنایا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کو تو کم از کم ان ورکرز کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر مار کھاتے نظر آنا چاہیے تھا جن کی قربانیوں کے سہارے انہوں نے وزیراعلیٰ بننے کی امید خان سے باندھ رکھی ہے۔ جن ورکرز نے لاہور میں زمان پارک کے باہر پولیس تشدد برداشت کیا ہے‘ ان میں سے کسی نے وزیر یا وزیراعلیٰ نہیں بننا اور جو وزیربننے اور وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہیں‘ وہ گھر بیٹھے چائے کے ساتھ پکوڑے کھاتے ہوئے سوشل میڈیا پر ان ورکرز کی پولیس کے ہاتھوں درگت بنتے دیکھتے رہے۔
انسانی تاریخ میں یہ عام لوگ ہی ہمیشہ اپنے سے زیادہ چالاک اور ہوشیار انسانوں کی خواہشات کا ایندھن بنتے آئے ہیں۔ ان ذہین لوگوں نے اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑنے کے لیے ہمیشہ عام انسانوں کی بَلی چڑھائی ہے۔ سکندرِ اعظم کو سب جانتے ہیں لیکن اس کے کسی ایک فوجی کا نام بھی آپ کو معلوم نہیں جو اس کے لیے لڑا اور مارا گیا۔ سکندر کی دنیا فتح کرنے کی خواہشات کے لیے قربانی عام یونانیوں نے دی جنہیں آج کوئی نہیں جانتا۔ فرانس کے نپولین کی عظمت کے نام پر لاکھوں فرانسیسی فوجی مارے گئے۔ کسی کو ایک بھی فوجی کا نام یاد ہے؟ سب نپولین کو ہی جانتے ہیں۔ آج کے جمہوری ادوار میں بھی وہ سلسلہ جاری ہے جو سکندر اور نپولین دور میں رائج تھا۔ بس انداز بدل گیا ہے لیکن طریقۂ واردات صدیوں سے ایک ہی چلا آرہا ہے۔ کسی بھی قوم یا عوام کو اپنے پیچھے لگانا ہو اور ان کی لاشیں گرا کر اپنا قد بلند کرنا ہو تو انہیں بانس پر چڑھا دو۔ ان میں ہوا بھر دو۔ انہیں بتائو کہ وہ کتنی عظیم قوم ہیں اور وہ پوری دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس عظیم بننے کے رومانس میں عام لوگوں نے اپنے جیسے انسانوں کو قتل بھی کیا اور خود بھی قتل ہوئے۔ بھٹو صاحب کے جوشیلے نعرے سنیں تو آج بھی آپ کا دل جوش سے بھر جائے گا کہ گھاس کھا لیں گے‘ ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ بھارت سے ہزار سال جنگ لڑیں گے۔ بھٹو کی پھانسی پر لوگوں نے خود کو آگ لگا کر جلا لیا تھا۔ آج بھی ان کے نام پر پی پی پی ووٹ لے رہی ہے۔
نواز شریف خاندان سمیت جدہ جا بیٹھے اور وہاں برسوں سکون سے گزارے لیکن ان کا ورکر پرویز مشرف کے ہاتھوں جیلوں میں صعوبتیں اٹھاتا رہا۔ واپسی پر وزارتیں نواز شریف نے انہی لوگوں میں بانٹیں جو پرویز مشرف کی کابینہ میں وزیر تھے اور جن کے ادوار میں نواز لیگ کا ورکر ماریں کھا رہا تھا۔ ایلیٹ کلاس کو فرق نہیں پڑا۔ پہلے وہ مشرف کی کابینہ کا حصہ تھی‘ پھر نواز شریف کی کابینہ میں شامل ہو گئی۔ کبھی کبھار فرسٹریشن ہوتی ہے کہ عام آدمی پوری دیانت کے ساتھ ہر سیاسی لیڈر کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے لیکن ہر دفعہ اس کے ساتھ دھوکا ہوتا ہے۔ وہ ایک امید کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ وہ واقعی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس کی قربانی اور لہو سے انقلاب پھوٹے گا۔ جو لوگ ماڈل ٹائون میں شہباز شریف دور میں مارے گئے تھے‘ ان کے لہو کا کیا ہوا؟ عمران خان اور طاہرالقادری نے مل کر لانگ مارچ کیا اور اسلام آباد میں کئی ماہ تک دھرنا دے کربیٹھے رہے کہ مقتولوں کے خون کا حساب دو۔ تو کیا جب عمران خان وزیراعظم بنے اور پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تو ان مقتولوں کو انصاف ملا یا پھر طاہرالقادری نے کینیڈا سے لوٹ کر عمران خان کے خلاف کوئی جلوس نکالا کہ ہم تو دھرنے کے دنوں میں کزن بنے تھے؟
جب سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک چلی تو اس میں جاں بحق ہونے والے درجن بھر افراد یہی سوچ کر موت کے منہ میں گئے کہ ان کی قربانی رنگ لائے گی۔ تو کیا وہ قربانی رنگ لائی؟ اس قربانی میں سے افتخار چودھری کا بیٹا ارسلان نکلا جس کی کہانیوں نے پورے ملک کو ششدر کر دیا۔ آج وہ وکیل جو اس تحریک کے لیڈر تھے اور تقریروں سے عام لوگوں کا لہو گرمایا کرتے تھے‘ آج ان کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے ‘ جن کا تب یہ کہنا تھا اگر عوام نے آزاد ہونا ہے تو افتخار چودھری کو ہر صورت بحال کرانا ہو گا۔
ہر دور میں چالاک لوگ عام لوگوں کو اپنی عظمت کا جھنڈا گاڑنے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ نہ چالاک اور مکار لوگوں کی مکاریوں میں کمی آئی اور نہ ہی وطن کی محبت اور خود کو عظیم قوم کا فرد سمجھ کر جانیں دینے والوں کی تعداد کم ہوئی۔ چُوریاں کھانے والے مجنوں کل بھی تھے‘ آئندہ بھی ہوں گے۔ مانیکا‘ بزدار اور گجر خاندان‘ جنہوں نے بزدار دور میں لمبے ہاتھ مارے‘ ان خاندانوں کا کوئی ایک فرد بھی زمان پارک کے باہر سڑکوں پر پولیس کے ہاتھوں مار کھاتا نظر نہیں آیا۔ مار وہی عام ورکرز کھا رہے تھے اور یہ لاڈلے گھروں میں مزے سے بیٹھے گاؤں بسنے کا انتظار کررہے تھے۔ ذرا خان صاحب کا گاؤں بسنے دیں‘ یہ لیٹرے سب سے پہلے گاؤں کی نمبرداری سنبھالیں گے۔