کس نام سے پکاروں؟

تحریک آزادی نسواں کی علمبردار خواتین سے امریکہ میں تو ہماری مڈبھیڑ ہوتی رہتی تھی اور ان سے ’’علمی مباحثے ‘‘بھی ہوتے تھے مگر پاکستان میں کبھی ان سے دو بدو ملاقات نہیں ہو سکی مگر کبھی کسی کے بارے میں بتایا بھی گیا کہ یہ محترمہ عورتوں اور مردوں سبھی کے حقوق کی مبلغ ہیں تو صرف دو تین بار شرف ملاقات حاصل ہونے پر یہ کھلا کہ موصوفہ مردوں سے برابری کے حقوق کی طلب گار تو ہیں مگر وہ توقع رکھتی ہیں کہ مرد ان سے اُٹھ کر ملیں اور جب مرد کسی محفل میں آئیں تو یہ بیٹھی رہیں ،ان کی کسی درشت بات کا جواب درشت لہجے میں نہ دیں حتی کہ گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوں ۔

تاہم اس حوالے سے ہمارے اور آپ کے حسد کرنے سے کیا ہوتا ہے ویسے آپ اگر سچ پوچھیں تو یہ سب باتیں جو میں نے کی ہیں محض اپنے باتونی ہونے کی وجہ سے کی ہیں کیونکہ کہنا تو صرف یہ تھا کہ عورتوں کے حقوق کے لئے لڑنے والی خواتین عورتوں کےساتھ ہونے و الی کیسی کیسی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرتی رہتی ہیں مگر ایک ناانصافی کی طرف ان کا دھیان کبھی نہیں گیا اور یہ ناانصافی خواتین کو مخاطب کرنے کے ضمن میں ہے ،اس کی وضاحت کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ کسی مرد کو اگر خط میں مخاطب کرنا ہوتو اس کے لئے کتنے ہی لفظ ہیں مثلا مکرمی، محترمی، عزیز، دوست، قبلہ و کعبہ، حضورِ والا ، برادرم اور پیرو مرشد وغیرہ اگر یہ لفظ کم پڑ جائیں تو محمد طفیل کے خاکوں کی کتابوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے جن کے نام غالباً اسی مشکل کو آسان کرنے ہی کے لئے رکھے گئے ہیں جبکہ عورتوں کو مخاطب کرنے کےلئے ایسے لفظوں کاسخت قحط ہے ۔مثلاً اگر انہیں مکرمی کے مقابلے میں مکرمہ کہنے کی کوشش کی جائے تو دھیان مقدس مقامات کی طرف چلا جاتا ہے، محترمی کے جواب میں انہیں محترمہ کہا جائے تو ہماری فلموں میں ہیرو کی زبان سے ’’محترمہ‘‘ کے لفظ کا استعمال جس طرح ہوتا ہے اس کے پیش نظر محترمہ کہنے کے بعد باقاعدہ ڈائیلاگ بولنے کو بھی چاہتا ہے۔ اسی طرح ایک عزیز دوست کے جواب میں عزیز سہیلی کے الفاظ خواتین تو ایک دوست کو لکھ سکتی ہیں مگر وہ جو اس ذیل میں نہیں آتے یہ لفظ لکھنے سے ان کی سیکس خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اب قبلہ و کعبہ کتنا اچھا لفظ ہے مگر اس پر بھی صرف مردوں کا اجارہ ہے آپ کسی خاتون کو قبلہ و کعبہ نہیں کہہ سکتے قبلی و کعبی ہی کہہ سکتے ہیں البتہ برادرم کے جواب میں ’’بہن جی ‘‘ لکھا جا سکتا ہے مگر اس مخاطب سے یوں لگتا ہے جیسے بانو بازار میں کسی پراندے بیچنے والے نے آواز لگائی ہو۔

باقی رہا پیرو مرشد کہنے کا مسئلہ تو اسے اگر کوئی پیری و مرشدی بنا کر سمجھے کہ اس نے زبان اور اپنے مخاطب کے ساتھ انصاف کیا ہے تو اس کی سزا وہ خود پائے گا کیونکہ کسی خاتون کو ’’پیری‘‘ کا طعنہ اپنے رسک ہی پر دیا جا سکتا ہے، ہاں ایک لفظ ’’آنجنابہ ‘‘ بھی ہے مگر نہ جانے کیوں مجھے اس کی سائونڈطنز یہ سی لگی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی کو مخاطب کرنے کی بجائے طعنے مارے جا رہے ہوں بلکہ یہ آنجنابہ تو کوئی آنجہانی قسم کی چیز لگتی ہے سو اب یہ گیند حقوق نسواں کی علمبردار خواتین کی کورٹ میں ہے اگر وہ جذبہ صادق رکھتی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اولین فرصت میں لفظوں پر مردوں کی اس اجارہ داری کے خلاف آواز اٹھائیں۔

حقوق نسواں کی علمبردار خواتین کی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانے کی وجہ یہ ہے کہ دراصل اس پس منظر میں مرد استعمار کی استعماری فطرت جھلک رہی ہے اور وہ استعماری فطرت یہ ہے کہ وہ عورت کو صرف ایک مقام دینے کے لئے تیار ہے اور یہ مقام وہ ہے جو تصویر میں رنگ کا ہوتا ہے چنانچہ اس خیال کی تشریح و تفسیر سے دیوان بھرے ہوتے ہیں آپ دیکھ لیں کہ تمام شاعر غزل کا موضوع صرف محبوب کو بناتے ہیں، بیوی کو یعنی اپنی بیوی کو کبھی نہیںبناتے چنانچہ آج تک مولانا حالی کے علاوہ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنی شاعری میں بھی بیویوں کے حقوق پورے کرے ،یہ بات دھیان میں دراصل ایک اور بات کہنے کے لئے آ گئی ہے اور وہ بات یہ کہ انہی شاعروں اور ان کے بھائی بندوں کے اپنے جذبوں کی تکمیل کے لئے تو کتنے ہی کومل الفاظ برائے، مخاطب اختراع کہے ہیں مثلاً جان من، جان جاناں اور ایسے ہی بیسیوں دوسرے الفاظ جن میں سے ہر ایک پر شرفاء کے منہ سے لاحول ولاقوۃ نکلتا ہے مگر جونہی یہ رشتہ درمیان سے غائب ہوا یہ فصیح البیان اہل زبان گونگے بن کر رہ گئے اور ہمارے آپ کے لئے مکرمہ، آنجنابہ ایسے طرزتخاطب چھوڑ گئے اس پر ہم نے تو خیر کیا احتجاج کرنا ہے البتہ حقوق نسواں کی علمبردار بیبیوں سے گزارش ہے کہ وہ مردوں کی اس استعماری فطرت کے خلاف آواز اٹھائیں کہ اصل خواتین تو یہی ہیں، باقی بے چاری تو گائیں بھینسیں ہیں۔