گوگل کو ٹکر دینے والے ’چیٹ جی پی ٹی‘ میں نیا کیا اور طلبا اس سے اتنے خوش کیوں ہیں؟

یوں تو انٹرنیٹ پر چیزیں سرچ کرنے کے لیے متعدد سرچ انجن موجود ہیں لیکن گذشتہ دو دہائیوں سے گوگل نے اس حوالے سے اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہوئی ہے۔

تاہم گذشتہ برس کے اواخر میں لانچ ہونے والے تہلکہ خیز چیٹ باٹ کی بے پناہ مقبولیت کے باعث اب بظاہر اسے بھی خطرہ درپیش ہے۔

مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کی جانب سے نومبر کے اواخر میں چیٹ جی پی ٹی کے نام سے ایک چیٹ باٹ لانچ کیا گیا تھا جسے ایک ہفتے کے اندر 10 لاکھ سے زیادہ صارفین نے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔

تاہم کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی سے صارفین کو ان کے سوالات کے متنازع جوابات بھی مل سکتے ہیں اور اس کا رویہ کچھ معاملات میں متعصبانہ بھی ہو سکتا ہے۔

تاہم اس وقت سوشل میڈیا پر نوجوان طلبا اے آئی چیٹ بوٹ سے سب سے زیادہ خوش ہیں کیونکہ اب انھیں لگتا ہے کہ ان کے لیے سکول، کالج یا یونیورسٹی کا کام کرنا مزید آسان ہو جائے گا۔

یہی وجہ ہے امریکی ریاست نیویارک کی جانب سے سکولوں میں چیٹ جی پی ٹی پر پابندی عائد کی گئی ہے تاکہ بچے صرف اسی پر انحصار کرتے ہوئے کام نہ کریں۔

کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم صارفین سے فیڈ بیک حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ اس نظام میں بہتری لائی جا سکے۔

چیٹ جی پی ٹی دراصل کمپنی کی جانب سے مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر بنائے سافٹ ویئرز میں تازہ ترین اضافہ ہے جسے کمپنی کی جانب سے جینرویٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفورمر یا جی پی ٹی کہا جا رہا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی سے اگر آپ کوئی بھی سوال پوچھیں تو یہ آپ کو اس حوالے سے ایک مفصل اور بہتر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

چاہے آپ اس سے کوئی نظم لکھوائیں یا اپنے سکول کی اسائنمنٹ میں رہنمائی حاصل کریں، یہ سافٹ ویئر آپ کو اکثر مایوس نہیں کرے گا۔

اس کے ایک پچھلے ورژن کو انسانوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے بہتر بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایلون مسک کی جانب سے کی گئی ایک ٹویٹ کے مطابق اس نظام کو ٹوئٹر کے ڈیٹا کے ذریعے بھی سیکھنے کا موقع دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اوپن اے آئی کے بانی اراکین میں ٹیسلا اور ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک بھی شامل تھے تاہم اب وہ اس کے بورڈ میں شامل نہیں تاہم انھوں نے بعد میں لکھا کہ انھوں نے ’فی الحال‘ ڈیٹا کی رسائی روک دی ہے۔

اس سے حاصل ہونے والے نتائج نے اکثر افراد کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا ہے۔ اوپن اے آئی چیف ایگزیکٹو سیم آلٹمین کی ایک ٹویٹ میں چیٹ جی پی ٹی کی خامیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور اس میں بہتری لانے کے لیے لوگوں سے مدد کی اپیل بھی کی جاتی ہے۔

اوپن اے آئی کا کہنا تھا کہ اس چیٹ فارمیٹ میں مصنوعی ذہانت کو ’سوالات پوچھنے، اپنی غلطی تسلیم کرنے، غلط سوچ کو چیلنج کرنے اور غیر مناسب سوالات کو مسترد کرنے کی بھی آزادی ہوتی ہے۔‘

میشیبل نامی ٹیکنالوجی نیوز ویب سائٹ سے منسلک صحافی مائیک پرل نے چیٹ جی پی ٹی استعمال کیا اور ان کا کہنا ہے کہ اس ماڈل سے متنازع باتیں اگلوانا مشکل ہے۔

مائیک پیرل نے لکھا کہ ’اس کا دقیانوسی باتوں سے گریز کرنے کا نظام بہت مؤثر ہے۔‘

تاہم اوپن اے آئی نے خبردار کیا ہے کہ ’چیٹ جی پی ٹی کبھی کبھار بظاہر درست محسوس ہونے والے لیکن غلط اور متنازع جوابات لکھ دیتا ہے۔‘

کمپنی کا کہنا ہے کہ اگر ہم اس ماڈل کو مزید محتاط ہونے کی ٹریننگ دیں تو پھر یہ ان سوالوں کے جواب دینے سے بھی گریز کرتا ہے جن کے درست جوابات اسے معلوم ہوتے ہیں۔

جب بی بی سی نے اس آرٹیکل کے لیے چیٹ جی پی ٹی سے بات کی تو اس نے انکشاف کیا کہ وہ ایک محتاط انداز میں انٹرویو دینے والا سافٹ ویئر ہے جو اپنی بات کو انگریزی میں واضح اور درست انداز میں بتا سکتا ہے۔

جب ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسان لکھاریوں کی نوکریوں کو خطرہ ہے تو اس کا جواب نفی میں تھا۔ اس نے کہا کہ ’میری طرح کے مصنوعی ذہانت کے نظام لکھاریوں کو لکھنے اور سوچنے میں مدد دے سکتے ہیں لیکن یہ اس لکھاری پر ہے کہ وہ اس حوالے سے حتمی چیز کیا بناتا ہے۔‘

جب اس سے پوچھا گیا کہ مصنوعی ذہانت کے نظام کے معاشرتی اثرات کیا ہو سکتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ ’اس حوالے سے اندازہ لگانا مشکل ہے۔‘

چیٹ جی پی ٹی کی سوالات کے جواب دینے کی صلاحیت کے بعد متعدد صارفین یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا اس میں گوگل کا متبادل بننے کی صلاحیت ہے۔

دیگر صارفین نے یہ بھی پوچھا کہ کیا اب صحافیوں کی نوکریوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ٹاؤ سینٹر فار ڈیجیٹل جرنلزم کی ایملی بیل اس بارے میں پریشان ہیں کہ کہیں پڑھنے والے اس سے دھوکا نہ کھا بیٹھیں۔

ایڈا لوولیس انسٹیٹیوٹ کی کارلی کائنڈ کا کہنا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام متعدد معاشرتی اور اخلاقی خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے متعلق ممکنہ مسائل میں یہ جھوٹی معلومات کا پھیلاؤ بھی شامل ہے اور یہ موجودہ نظام میں مسائل کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

مثال کے طور پر چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے ایسا مضمون یا نوکری کے لیے درخواست لکھ سکتے ہیں جو اتنی اچھی ہو کہ آپ کو دوسروں کے مقابلے میں فوقیت مل جائے۔

اسی طرح کاپی رائٹس اور پرائیویسی سے متعقل خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں کیونکہ یہ نظام عام طور پرانٹرنیٹ صارفین سے غیر اخلاقی طور پر حاصل کیے گئے ڈیٹا کے ذریعے سکھائے جاتے ہیں۔

تاہم ماہرین کا یہ بھی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے دلچسپ اور تاحال نامعلوم فوائد بھی ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستانی صارفین کی جانب سے بھی چیٹ باٹ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

معاشی امور کے ماہر عزیر یونس نے چیٹ جی پی ٹی کی جانب پاکستانی معیشت پر کہی گئی نظم کا حوالہ دیا۔

اسی طرح کچھ صارفین چیٹ جی پی ٹی سے یہ بھی پوچھتے نظر آئے کہ پاکستان کے مسائل کا حل کیا ہے۔

شہریار عامر نامی صارف نے لکھا کہ چیٹ جی پی ٹی کے پاس پاکستانی معیشت کو ٹھیک کرنے کے ہمارے وزرا سے بہتر حل موجود ہیں۔

ایک صارف نے یہ بھی گلا کیا کہ یہ ایپ تو اچھی ہے لیکن اسے فی الحال پاکستانی سیاست کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔

شہربانو خان نے لکھا کہ چیٹ جی پی ٹی پاکستان میں ٹرینڈ کر رہا ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم بھی بالآخر سوچ رہے ہیں۔