مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
جب عدالت کے حکم پر کوئی 7 رکنی بینچ بنا ہی نہیں تو چار تین کا فیصلہ کیسے ہوگیا ؟:عمر عطا بندیال
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب میں14 مئی کو انتخابات کرانےکے حکم پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت کےد وران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کیس کا بینچ عدالتی حکم پر 9 رکنی سے 5 رکنی بنا، جب عدالت کے حکم پر کوئی 7 رکنی بینچ بنا ہی نہیں تو چار تین کا فیصلہ کیسے ہوگیا ؟
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نےسماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔
آج سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز عدالت کےکچھ ریمارکس کا تاثر درست نہیں گیا، کل عدالت میں کہا گیاکہ الیکشن کمیشن نے نکات پہلےکیوں نہیں اٹھائے، دوسرا نکتہ تھا وفاقی حکومت پہلے 4/3 کے چکر میں پڑی رہی، ایک صوبے میں انتخابات ہوں تو قومی اسمبلی کا الیکشن متاثر ہونےکا نکتہ پہلے بھی اٹھایا تھا، اپنے جواب میں 4/3 کا فیصلہ ہونےکا ذکربھی کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم کل خوش تھے کہ قانونی نکات عدالت کے سامنے پیش کیےگئے، آپ کوگھبرانا نہیں چاہیے، عدالت آپ کی سماعت کے لیے بیٹھی ہے، کوئی معقول نکتہ اٹھایا گیا توجائزہ لےکر فیصلہ بھی کریں گے، عدالت میں قانونی نکات پہلے اٹھائے گئے لیکن اس پربحث نہیں کی گئی، کل نظرثانی کے دائرہ اختیار پر بات ہوئی تھی، ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یاد رکھیں کہ آپ کے جو بھی اعمال تھے وہ وہیں تک محدود تھے، حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کے لیے بہت سی قربانیاں دے کر یہاں بیٹھے ہیں، آپ اپنے ساتھیوں سے کہیں کہ ہمارے دروازے پر اتنی سخت باتیں نہ کریں، اپنے ساتھیوں سے کہیں کہ سب سے بڑے ایوان میں اتنی سخت باتیں نہ کریں، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں، جس ہستی کاکام کر رہے ہیں وہ بھی اپنا کام کرتی ہے، آپ کو جس نے صفائی دینےکا کہا اسے بتادیں کہ عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سےکہا کہ ہم نے تو آپ کو دیکھ کر کھلے دل سے “گڈ ٹو سی یو” کہا، کسی اور طریقے سے کہی گئی باتیں رپورٹ ایسے ہوئیں کہ ان سے تاثر غلط گیا، ہماری ہر چیز درست رپورٹ نہیں ہوتی، کہا گیا عمران خان کو عدالت نے مرسڈیز دی تھی، محترم میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا، پی آراو نے بھی بتایا پولیس نے عمران خان کے لیے بلٹ پروف مرسڈیز کا بندوبست کیا، اس بات کو پتہ نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کے دلائل
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ عدالت ہمیشہ آئین کی تشریح زندہ دستاویز کے طور پرکرتی ہے، انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے اس لیے دائرہ کار محدود نہیں کیا جاسکتا، مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار سپریم کورٹ کے سوا کسی اور عدالت کو نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ کیا 150 سال کی عدالتی نظیریں غیرموثر ہوگئی ہیں؟ 150 سالہ عدالتی نظیروں کے مطابق نظرثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے، اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ دائرہ کار پر آپ کی دلیل درست مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہوجائیں گے، سپریم کورٹ رولز میں نظرثانی پر ابھی تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی، دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی نظرثانی کے لیے آجائیں گے، کیسے ہوسکتا ہے سپریم کورٹ رولز کا نظرثانی سے متعلق آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہو؟ آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہونے سے نظرثانی دائر کرنے کی مدت بھی ختم ہوجائےگی، کیا 10 سال بعدکوئی نظرثانی دائر کرکے کہہ سکتا ہے رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے؟ آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے بعد کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ نظرثانی دائر کرنےکے لیے مدت ختم نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 70 سال میں یہ نکتہ آپ نے دریافت کیا ہے تو نتائج بھی بتائیں۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ نظرثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے۔
رولز نظرثانی کے آئینی اقدام پر قدغن نہیں لگاسکتے:وکیل الیکشن کمیشن
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ رولز نظرثانی کے آئینی اقدام پر قدغن نہیں لگاسکتے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آئین میں تو نظرثانی دائر کرنے کی مدت بھی نہیں دی گئی، کیا فیصلے کے 20 سال بعد نظرثانی دائر ہوسکتی ہے؟ اگر نظرثانی کی مدت والا رول لاگو ہوسکتا ہے تو دائرہ کار کیسے نہیں ہوگا؟
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ رولزبنانے والوں نے دائرہ کار آئینی مقدمات میں محدود نہیں رکھا، ملک کے 3 بہترین ججز کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہوں، وقت کے ساتھ قانون تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق 184/3 کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ آرٹیکل184/3 کےفیصلوں میں غلطیاں ہوئی ہوں، آپ کی نظر میں نظرثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے؟ آپ چاہتے ہیں نظرثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے؟ اس نکتے پر اٹارنی جنرل سے رائے لیں گے، اب اصل مقدمہ کی جانب آئیں اس پر بھی دلائل دیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا معاملہ پہلی بارعدالت آیا تھا۔
7رکنی بینچ عدالتی حکم پربنا ہی نہیں تو 4/3 کا فیصلہ کیسے ہوگیا؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے خود کہا تھا سکیورٹی اور فنڈز دے دیں انتخابات کروادیں گے، اب ان تمام نکات کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ 9 رکنی بینچ نے اپنے حکم میں اہم سوالات اٹھائے تھے، تب تو سیاسی جماعتوں کے مفادات کہیں اور جڑے ہوئے تھے، قانونی نکات پر دلائل کے بجائے بینچ پر اعتراض کیا گیا، عدالتی حکم پر ہی 9 رکنی سے 5 رکنی بینچ بنا، 7 رکنی بینچ عدالت کے حکم پربنا ہی نہیں تو 4/3 کا فیصلہ کیسے ہوگیا؟ مفاد عامہ کا معاملہ نہ ہوتو 2 منٹ میں اس کیس کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے، عدالت قانونی نکات پر دلائل سن کر فیصلہ کرنا چاہتی ہے، عدالت آسانی سے کہہ سکتی ہے آپ نے کشتی مس کردی،لیکن نہیں کہا۔
‘آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں’
وکیل الیکشن کمیشن نےکہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے صدر کو خط لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو وہ صورتحال نہیں بتائی جو عدالت کو اب بتا رہے ہیں، صدر کو صرف تاریخ دینےکا لکھا گیا تھا، سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتا ہے، جو آج سپریم کورٹ کو بتا رہے ہیں یہ سب صدر کو بتانا تھا، الیکشن کمیشن نے صدر کو بیک وقت ملک بھر میں انتخابات کی تجویز کیوں نہیں دی؟ صدر مملکت کو 218/3 کا بتایا نہ ہی 1970 کے انتخابات کا، الیکشن کمیشن نے صدرکو نہ سکیورٹی کا بتایا نہ فنڈز کا، زمینی حقائق کا ذکر کیے بغیر کہا جارہا ہے کہ نظرثانی میں مزید اختیارات دیں، آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں، ہم پھربھی آپ کو سنیں گے، آپ اپنے دلائل جاری رکھیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ تلور کے شکار والے کیس میں بھی عدالت نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی، 16 ہزار ملازمین کے کیس میں نظرثانی خارج ہوئی تھی، اُس کیس میں عدالت نے بنیادی حقوق دینے اور مکمل انصاف کا اختیار استعمال کیا، ججز کیس میں بھی عدالت نے اپنا فیصلہ خود تبدیل کیا۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت نے ججزکیس میں ازخود نظرثانی کی تھی۔
الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت 25 مئی دن 12 بجے تک ملتوی کردی گئی۔