معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
دیت کا قانون کب، کیوں اور کیسے؟: محمد بلال غوری
اگر آپ کے پاس کوئی بڑی اور مہنگی گاڑی ہے تو اس کے ڈیش بورڈ میں دو چار کروڑ لے کر جیسے چاہیں ڈرائیونگ کریں، راہ گیروں کو کچل کر مار ڈالیں، آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی، قتلِ خطاء کی اس واردات میں دیت ادا کر کے آپ آزاد ہو جائیں گے۔
یقین نہیں آتا تو ضابطۂ فوجداری قوانین (پاکستان پینل کوڈ) کی دفعہ 299 سے لے کر 338 تک کا مطالعہ کر لیں یا پھر شاہ رخ جتوئی کیس سے نتاشا اقبال کیس کو دیکھ لیں۔ اگرچہ اسلامی قوانین کے نام پر پاکستان کی معکوس ترقی کا سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر جاتا ہے مگر دولت مندوں کی سہولت کاری کیلئے بنایا گیا دیت کا یہ قانون جس کے تحت قاتل چھوٹ جاتے ہیں، اس کے ذمے دار دو افراد ہیں، سابق چیف جسٹس افضل ظلہ اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف۔
دیت، قصاص، عفو اور تعزیر جیسی عرب اصطلاحات کی آڑ میں نئے قوانین بنانے کا تصور تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہی سامنے آیا مگر اس پر عمل درآمد کی نوبت بعد میں آئی۔
جماعتِ اسلامی کے رہنما محمد اسماعیل قریشی نے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا تو ان کی درخواست پر ضابطۂ فوجدار ی کی 300 دفعات کو غیر اسلامی قرار دیدیا گیا اور حکومت کو ہدایت کی گئی کہ ان کی جگہ دیت اور قصاص کے اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے۔
چیف جسٹس محمد حلیم کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس افضل ظلہ چیف جسٹس بن چکے تھے جو ضیاء الحق کی طرح قدامت پسندانہ خیالات اور سوچ کے حامل تھے۔ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو ٹھیک گردانتے ہوئے بینظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیا مگر جب ان کی حکومت برطرف ہونے کے بعد غلام مصطفیٰ جتوئی کی سربراہی میں نگران حکومت بنی تو یہ دباؤ برداشت کرنا دشوار ہو گیا، یوں 5 ستمبر 1990ء کو قصاص اور دیت کے حوالے سے آرڈیننس جاری کر دیا گیا۔ اس کے بعد مسلسل 7 سال تک حکومتیں یکے بعد دیگرے آرڈیننس جاری کرتی رہیں مگر پارلیمنٹ سے توثیق نہ ہونے کے سبب قوانین میں تبدیلی نہ کی جا سکی۔ آخر کار یہ قانون سازی میاں نواز شریف کے حصے میں آئی۔ فروری 1997ء میں انہوں نے دوسری بار بطور وزیرِ اعظم حلف اُٹھایا اور اپریل 1997ء میں کریمنل لاء امینڈمینٹ ایکٹ 1997ء پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے بعد قانون بن گیا۔
اس ترمیمی بل کے تحت ضابطۂ فوجداری میں 299 سے 338 تک نئی دفعات شامل کر کے ضابطۂ فوجداری کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی گئی۔کسی انسان کو قتل کردینے کے جرم کو 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ قتلِ عمد، قتلِ خطاء اور قتل بالسبب۔ کوئی شخص جان بوجھ کر، دانستہ طور پر، بقائمی ہوش و حواس کسی دوسرے شخص کو مار ڈالے تو اسے قتلِ عمد کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کے ہاتھوں قتل ہو جائے مگر اس کی نیت شامل نہ ہو، توپی پی سی کی دفعہ 318 کے تحت اسے قتلِ خطاء قرار دیا گیا ہے۔باقاعدہ مثال دے کر بتایا گیا ہے کہ ایک شخص ہرن کا نشانہ لیتا ہے لیکن گولی پاس کھڑے شخص کو لگ جاتی ہے تو یہ قتلِ خطاء ہو گا۔ اسی طرح تیسری صورت قتل بالسبب کی ہے۔ مثلاً جھگڑا ہونے پر کسی شخص کو مکا مارا، جان سے مارنے کی نیت نہیں تھی مگر وہ شخص مر گیا۔ کہیں کھدائی ہوئی، گڑھا کھودا گیا، کوئی شخص اس میں گر کر مر گیا تو ایسی صورت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ321 کے تحت قتل بالسبب کا اطلاق ہو گا۔ غیر محتاط، غیر ذمے دارانہ اور تیز ڈرائیونگ کے باعث کوئی شخص آپ کی گاڑی سے ٹکرا کر مر جائے تو ایسی صورت میں ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 320 کے تحت قتل بالسبب کا مقدمہ درج ہو گا۔
میاں نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت میں بنائے گئے ان قوانین کے تحت قاتلوں کیلئے دو طرح کی گنجائش نکالی گئی ہے۔ اگر قاتل کم عمر ہے یا پھر اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس پر قصاص کا اطلاق نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قاتل سزا سے بچنے کیلئے خود کو کم سن ظاہر کرتا ہے یا پھر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہے۔ اسی طرح مذکورہ بالا قوانین میں مقتولین کو صلۂ رحمی سے کام لینے اور معاف کر دینے کا حق دیا گیا ہے۔ مثلاً دفعہ 309 جو عفو سے متعلق ہے اس میں کہا گیا ہے کہ مقتول کا ولی جو عاقل و بالغ ہو، وہ بغیر کسی وجہ سے، دیت وصول کیے بغیر محض یہ کہہ دے کہ اس نے معاف کیا تو مقدمے کی کارروائی ختم کر دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ چاہے تو زرِ تلافی بھی وصول کر سکتا ہے۔
ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 323 کے تحت انسانی جان کی قیمت کا تعین کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ دیت 30630 گرام چاندی ہو گی۔ ہر سال یکم جولائی کو حکومتِ پاکستان چاندی کے نرخ کے مطابق دیت کی رقم طے کرتی ہے۔گزشتہ برس نگراں حکومت نے دیت کی رقم 67 لاکھ 57 ہزار 902 روپے مقرر کی تھی۔ اس سال اگرچہ حکومت کی طرف سے باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا تاہم بتایا جاتا ہے کہ یہ رقم بڑھ کر 80 لاکھ 48 ہزار 564 روپے ہو چکی ہے۔شاید آپ کو یہ جان کر شدید حیرت ہو کہ محولا بالا قوانین کے تحت قتلِ خطاء اور قتل بالسبب کا ارتکاب کرنے والوں کیلئے ہر ممکن سہولت کا بندوبست کیا گیا ہے اور نہایت شاندار پیشکش موجود ہے۔ وہ چاہیں تو ضابطۂ فوجداری کی وفعہ 331 کے تحت دیت کی رقم 3 سال کی آسان اقساط کی شکل میں بھی ادا کر سکتے ہیں۔
آپ کارساز حادثے میں مرنے والے محمد عمران اور ان کی بیٹی آمنہ عمران کے خون کا سودا کرنے پر ان کے اہلِ خانہ کو ہرگز مطعون نہ کریں۔ وہ زندگی بھر کی محنت مزدوری کے بعد اتنی بڑی رقم جمع نہیں کر سکتے تھے اور اگر بالفرض محال وہ یہ پیشکش مسترد بھی کر دیتے تو کیا ہمارا نظامِ عدل طاقت ور اور بااثر شخصیات کو سزا دینے کی جسارت کر سکتا ہے؟ چلیں انہوں نے معاف کر دیا تو قتلِ خطاء اور قتلِ بالسبب کا معاملہ ختم ہوا مگر فساد فی الارض کی بنیاد پر عدالت اب بھی تعزیر کے تحت 14 سال تک قید کی سزا دے سکتی ہے۔ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے پر سزا ہو سکتی ہے، اگر ایسا ہو جائے تو پھر معاف کرنے والوں کو برا بھلا کہہ لیجیئے گا۔