ٹانک کے علاقہ گرہ شادہ میں ملزمان نے پولیس اہلکار کے گھر کو آگ لگا دی۔ پولیس کے مطابق واقعہ گزشتہ رات پیش آیا ہے۔ ملزمان گھر کو آگ لگانے کے بعد مذکورہ پولیس اہلکار کو اپنے ساتھ اغواء کر مزید پڑھیں
پاکستان میں بارشیں تھم گئی ہیں مگر بچوں کی اموات اب بھی ہو رہی ہیں: یونیسف
’’بارشیں ختم ہو گئی ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا کی توجہ بھی بہت حد تک ختم ہوچکی ہے۔ حالانکہ 40 لاکھ بچے آلودہ اور کھڑے سیلابی پانی کے کنارے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘ یہ بات پاکستان میں یونیسف کے سربراہ، عبداللہ فاضل نے جنیوا میں پالس ڈیس نیشنز میں آج ایک پریس بریفنگ کے دوران کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کے گھر تباہ ہوچکے ہیں اور وہ مناسب پناہ گاہ سے محروم ہیں جبکہ انہیں سخت سردی کا سامنا ہے۔
’’آپ سبھی نے وہ دل دہلا دینے والی تصاویر دیکھی ہوں گی جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاؤں جزیروں میں بدل گئے ہیں، بچے یتیم ہو گئےاور خاندان اب بھی خون جما دینے والی سردی میں چند پلاسٹک کے ٹکڑوں کے نیچے پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اعدادو شمار بھی ایک ایسی صورت حال کی نشاندہی کررہے ہیں جو پاکستان کے بچوں کے لیے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں ہے۔
’’سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں، تقریبا 16 لاکھ بچے پہلے ہی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جبکہ دیگر 60 لاکھ بچے نشوونما میں کمی کا شکار ہیں، ایک ایسی حالت جو بچوں کے دماغ، جسم اور مدافعتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یونیسف کو خدشہ ہے کہ سیلاب کے بعد یہ صورتحال ابتر ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ستائیس ہزار اسکول بہہ گئے ہیں، مگر اس مسلسل المیے اور تمام نوجوانوں کی زندگیاں داؤ پر لگنے کے باوجود، یونیسف کی جانب سے کی گئی 173 ملین امریکی ڈالر کی اپیل کاصرف آدھا حصہ موصول ہوا ہے۔ پاکستان کے تقریبا ہر شعبے میں اور لاکھوں بچوں کو فائدہ پہنچانے والے ہمارے اقدامات کے باوجود یہ صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ہفتے بین الاقوامی عطیہ دہندگان نے پاکستان کو اس تباہی سے نکلنے میں مدد کے لیے 9 ارب ڈالر سے زائد امداد دینے کا وعدہ کیا ہے ، جو کہ ایک بہت ہی فراخدلانہ اقدام ہے، لیکن بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں بچوں کو دیگر امور پر اولیت دینی چاہیے۔حقیقی معاشی بحالی اور پائیدار ترقی صرف اسی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہے جب ہم بچوں کی فوری اور طویل مدتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ضروری سرمایہ کاری کریں۔
عبداللہ فاضل نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم انسانی وسائل کے فروغ اور استحکام میں سرمایہ کاری کریں، خاص طور پر دیہی سندھ اور بلوچستان میں جہاں زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ زیادہ خطرات کے شکار ان علاقوں، خاص طور پر دور دراز اور پسماندہ جگہوں میں آباد لوگوں کو صحت کی دیکھ بھال، غذائیت، تعلیم، تحفظ، حفظان صحت اور صفائی ستھرائی جیسی ضروری خدمات تک قابل اعتماد رسائی کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا مرکز ہے اور ہوسکتا ہے کہ جلد ہی اس ملک کے بچوں کو ایک اور بڑے پیمانے کی موسمیاتی آفت کا سامنا کرنا پڑے۔ ہمیں آج اپنی کوششوں کو دوگنا کرنے کے لئے مستحکم مالیاتی مدد اور طویل مدتی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو اس مستقل عدم مساوات کے مسئلہ کو حل کرسکے جو ان علاقوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کو طویل عرصے سے درپیش ہے۔