سیاحتی آبدوز ’ٹائٹن‘ کی تباہی، مسافر ایک ثانیے میں کچلے گئے ہونگے، ماہرین

سیاحتی آبدوز ’ ٹائٹن ‘ کا ملبہ ملنے کی تصدیق ہوگئی ہے ۔

اس سے قبل امریکی کوسٹ گارڈز نے بتایا تھا کہ جمعہ کی صبح 4 بج کر8 منٹ پر آبدوز میں موجود آکسیجن ختم ہوجاناتھی جس کے بعد آبدوز کے محفوظ ہونے کی صورت میں بھی اس کے مسافروں کی زندگی کے چانسز معدوم ہوگئے ہیں اور اب بچاؤ کی سرگرمیاں دراصل ملبے اور مسافروں کی لاشوں کو پانی سے باہر لانے پر مرکوز ہیں۔

چونکہ آبدوز اس گہرائی میں پانی کے سخت دباؤ کی وجہ سے اندر کی جانب دھماکے سے پچکی ہے اس لیے امکان یہی ہے کہ تمام مسافر اس دباؤ میں اندر کی جانب ہونے والے دھماکے میں ایک سیکنڈ سے بھی بہت ہی کم وقفے میں کچلے گئے ہوں گے۔

واضح رہے کہ سمندرکی اس گہرائی میں اس فضائی دباؤ کی نسبت 400 گنا زیادہ دباؤ ہے جو ہم زمین پر محسوس کرتے ہیں ۔

سائنسی اصطلاح میں دباؤ فی مربع انچ ( پی ایس آئی) 6000 ہے جبکہ سطح سمندر کے اپر یہ 14.6 پی ایس آئی ہوتا ہے۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملبے نے کیا صورت اختیار کر لی ہوگی۔ 21 فٹ طویل مہم جویانہ زیرسمندر سیاحت کےلیے ڈیزائن کی گئی یہ سیاحتی آبدوز( سب مرسیبل) پر ہنگامی حالت کی صورت میں 96 گھنٹے کی آکسیجن کا ذخیرہ موجود تھا ۔

امریکی کوسٹ گارڈز بچاؤ کی کوششوں کی قیادت کر رہے تھے اور ان کا کہنا ہےکہ انہوں نے گزشتہ دو دن میں سمندر کے اندر شور سنا تھا لیکن ماہرین ابھی تک ان کی وجہ کا پتہ چلانے میں ناکام رہے ہیں۔

امریکی نیوی کمانڈر کے مطابق یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آوازیں اس سیاحتی آبدوز ’ ٹائٹن‘ سے نہ آر ہی ہوں۔

اس علاقے میں امدادی اور بچاؤ کی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے ایک فرانسیسی جہاز بھی تعینات ہے جس اپنے ایک روبوٹ ( وکٹر 6000) کے ذریعے ٹائٹن کے ملبے کو سطح پر نکال کر لاسکتا ہے۔

بچاؤ کی کوششوں کےلیے 10 ہزار مربع میل کے علاقے کو چھانا گیا جب کہ گہرائی میں 2.5 میل تک تلاش کی گئی۔

امریکی کوسٹ گارڈز کے پانچ بحری جہاز بدھ کو تلاش کی کارروائی میں شریک تھے اور جمعرات کو مزید 5 جہاز ان کی معاونت کےلیے پہنچ گئے تھے۔

ٹائٹن کے بارے میں خیال کیاجاتا ہے کہ یہ کینیڈا کے علاقے نیو فاؤنڈ لینڈ سے 400 سے میل جنوب اور 900 میل مشرق میں تھی جب یہ ڈوبی تاہم یہ معلوم نہیں کہ وہ کتنی گہرائی میں تھی تاہم اس علاقے کی گہرائی کے بارے میں اندازہ ہے کہ کہ 3800 میٹر یا تقریباً 12500 فٹ گہری ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ’ ٹائٹن‘ آپریٹ کرنےوالی کمپنی اوشین گیٹ کے ایک سابق ملازم نے مینجمنٹ کے سامنے اس کی حفاظت اور معیار کے کنٹرول کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے ۔

سی این بی سی نیوز کے مطابق قانونی ماہرین ان لوگوں اور ایسے بزنس کی ذ مہ داریوں ( لائبلٹیز ) کے حوالے سے سوالات اٹھارہے ہیں کہ جو اتنی خطرناک سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں کہ انہیں کون پورا کرے گا۔

اور ایسی سرگرمیاں اگر تباہی پر منتج ہوتی ہیں تو اس کے قانونی مضمرات کیا ہوں گے اور کس پر ہوں گے۔ماہرین کے مطابق ابھی تک ایسا کوئی نظام نہیں ہے جو کہ بتاسکے کہ اگر ایسا کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو نقصان کون ادا کرےگا ۔

اسٹین فورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر نورا فریمین کہتی ہیں کہ فی الوقت اگر کوئی ایسا بزنس آپریٹر غفلت کا مظاہرہ کرتا بھی ہے تو عدالتیں انہیں کٹہرے میں نہیں لاسکتیں۔