پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے واقعات کی گردشوں اور حالات کی صعوبتوں سے تنگ آکر ازخود گرفتاری دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
’’70 سال‘‘ سے تجاوز کرتی عمر کے ’’سپورٹس مین‘‘ کے ’’اعصاب شکستہ‘‘ ہوگئے اور اطلاعات کے مطابق وہ آنے والے چند دنوں میں اس فیصلے پر انتہائی غیر متوقع انداز میں عمل کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
یہ دعویٰ ان سے مسلسل ملاقاتیں رکھنے والے قریبی ذرائع کر رہے ہیں۔ اگر واقعاً ایسا ہی ہے تو اسے خارج از امکان ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یکسر مسترد کیا جاسکتا ہے کیونکہ گزشتہ کئی ماہ سے وہ مسلسل جن حالات و واقعات سے دوچار ہیں ان میں گھرے ہوئے شخص سے کسی بھی انتہائی اقدام کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اگر انتہائی اختصار سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جنہیں بالخصوص سانحہ 9 مئی کے بعد اپنے سیاسی رفقاء قابل اعتماد ساتھیوں اہم شخصیات پارٹی کے راہنماؤں حتیٰ کہ کارکنوں کی سطح تک لاتعلقی اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سامنا ہے۔
ان کے تمام ساتھی ایک ایک کرکے انہیں خیرباد کہہ چکے ہیں اور باقی ماندہ کہہ رہے ہیں ۔ دوستی کے دعویداروں سے لیکر ماضی کے مہربانوں اور ہمیشہ ساتھ کھڑے رہنے کا عزم کرنے والے آج نہ صرف ان کے لئے اجنبی بن چکے ہیں بلکہ ان کے سامنے خم ٹھوک کر کھڑے ہیں۔
پھر دوسری طرف عدالتوں میں مقدمات کے حوالے سے لگاتار پیشیوں کے تھکا دینے کا عمل ان کے اعصاب پر بری طرح اثرانداز ہو رہا ہے ہر چند کہ وہ ایک ’’سپورٹس مین‘‘ رہ چکے ہیں لیکن 70 سال سے تجاوز کرتی عمر میں اب جبکہ انہیں بنی گالہ کے وسیع و عریض گھر سے زماں پارک کے گھر میں منتقل ہونے کے بعد ورزش کی وہ سہولیات بھی میسر نہیں جو وہاں دستیاب تھیں اور نہ ہی وہ کسی پارک میں آزادی کے ساتھ بھاگ دوڑ کرسکتے ہیں جو بحیثیت سپورٹس مین ان کا پوری زندگی کا معمول رہا ہے۔
ان تبدیلیوں نے اس پیرانہ سالی میں ان کی جسمانی سے زیادہ ذہنی تھکن پر زیادہ دباؤ ڈالا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ نہ صرف ان کی مشکلات اور پریشان کن حالات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس صورتحال میں مستقل قریب میں تو کیا مستقبل بعید میں بھی بہتری کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
ان کیلئے ایک نئی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ حکومتی دور میں ان کے انتہائی قابل اعتماد رفقاء جن میں ان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی جو اچانک پراسرار روپوشی کے بعد سامنے آگئے ہیں وہ اپنے سابقہ منصب کی ذمہ داریوں کے حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کے ’’ان اور آؤٹس اور اسرار ورموز‘‘ اور ہر سطح کے معاملات سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔
گوکہ وہ سیاستدانوں کی طرح پریس کانفرنس میں سامنے تو نہیں آسکتے لیکن ان کی اچانک روپوشی کے بعد سامنے آنے سے بعض حلقوں کے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ انہوں نے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کیلئے اپنا کردار ضرور ادا کیا ہوگا۔
اسی طرح بعض غیر حکومتی شخصیات کے حوالے سے بھی یہ اطلاعات ہیں کہ وہ بھی وعدہ معاف گواہوں میں شامل ہوچکے ہیں، اس طرح وعدہ معاف گواہان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور یقیناً اگر ان کے نام اور چہرے سامنے آئے تو وہ انتہائی حیران کن ہوں گے۔
اب اس سارے پس منظر میں امکانات پر مبنی اس ’’سچی افواہ‘‘ پر یقین کر لیا جائے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان ازخود گرفتاری پیش کرسکتے ہیں تو اس پر یقین نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ ویسے بھی نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کے سابق اور حاضر راہنماؤں کے ساتھ ساتھ خود عمران خان کو بھی اس بات کا بخوبی یقین ہوچلا ہے کہ ان کی گرفتاری یقینی ہے اور اب یہ محض دنوں کی بات ہے۔
گلگت بلتستان میں ان کی واحد حکومت کے آخری وزیراعلیٰ خالد خورشید کی برطرفی اور نیب کے ترمیمی آرڈیننس کی منظوری جس کے تحت اب احتساب عدالت کو یہ اختیار دوبارہ مل گیا ہے کہ وہ انکوائری کے دوران کسی بھی ملزم کو نہ صرف گرفتار کرسکتا ہے بلکہ ترمیم کے تحت ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی مدت میں بھی چودہ دن سے بڑھا کر 30 دن کا اضافہ کردیا گیا ہے اور ’’ باوقت ضرورت‘‘ یہ دورانیہ 60 دن بھی ہوسکتا ہے ان جیسے فیصلوں سے عمران خان کے اعتماد میں ٹوٹنے کی حد تک کمی آئی ہے۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ کافی عرصے اور بالخصوص 9 مئی کے سانحے کی صورتحال کے بعد عمران خان اپنے ان انتہائی قابل اعتماد دوستوں جن کے مشوروں کو وہ شک کی نگاہ سے نہ بھی دیکھتے ہوں لیکن ان پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، وہ بھی عمران خان کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ اس سے پیشتر کہ حکومت انہیں گرفتار کرے وہ خود گرفتاری دے دیں۔
عمران خان ان کا مشورہ سن تو ضرور رہے ہیں لیکن آنکھیں بند کرکے اس پر عمل کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ یاد رہے کہ مبینہ طور پر حکومتی اور اداروں کی اس پیشکش کے باوجود کہ وہ ملک سے باہر چلے جائیں عمران خان بار بار اپنی تقریروں، انٹرویوز اور جلسوں میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی صورت بھی ملک سے باہر نہیں جائیں گے اس لئے اب وہ اس حوالے سے کوئی ’’یوٹرن ‘‘ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ان کے پاس کوئی متبادل صورتحال بھی موجود نہیں ہے۔