سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس میں وفاقی حکومت نے تحریری جواب جمع کروا دیا جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے آئینی حقوق سلب نہیں ہوتے، فوجی تنصیبات پر حملوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہئے.
آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین پاکستان سے پہلے سے موجود ہیں ،ان دونوں ایکٹس کو آج تک چیلنج نہیں کیا گیا، حکومت کی جانب سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ۔
پیر کو سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس میں وفاقی حکومت نے تحریری جواب جمع کروا دیا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے فْل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔31 صفحات پر مشتمل جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروایا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
وفاقی حکومت نے جمع کرائے گئے جواب میں وفاقی حکومت نے کہا کہ ان دونوں ایکٹس کو آج تک چیلنج نہیں کیا گیا، آرمی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیے گئے اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں۔
وفاقی حکومت نے اپنے جمع کرائے گئے جواب میں استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ براہِ راست اس کیس کو نہ سنے، فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔