عمران جیل جانے والے ملک کے پہلے حکمران نہیں

عمران خان پاکستان کے پہلے حکمران نہیں ہیں جنہیں جیل میں بند کیا گیا ہے کیونکہ اس ملک کی اپنے وزرائے اعظم، صدور اور سرکردہ سیاستدانوں کو قید کرنے کی ایک طویل اور ناقابلِ رشک تاریخ رہی ہے، اگر ہم صرف قومی سیاسی میدان سے متعلق معاملات کی بات کریں۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کو عہدے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، ان کے بہت سے پیشرو اور جانشینوں کو ان کے مختصر دور حکومت سے پہلے یا بعد میں قید کیا گیا تھا۔

جنوری 1962 میں ملک کے پانچویں وزیر اعظم (1956-57) حسین شہید سہروردی کو اس وقت جیل میں ڈال دیا گیا جب انہوں نے جنرل ایوب خان کے فوجی قبضے کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انہیں ہتھکڑیاں لگا کر کراچی سینٹرل جیل میں بغیر کسی مقدمے کے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا تھا۔

’ٹائمز آف انڈیا‘ نے 1974 میں ایک سیاسی مخالف کو قتل کرنے کی سازش کرنے پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو (ستمبر 1977) کی متعدد گرفتاریوں کی فہرست دی تھی۔

بھارتی میڈیا ہاؤس نے خبر دی تھی کہ بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے رہا کردیا تھا۔

جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی نے کہا کہ ان کی گرفتاری کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ لیکن بھٹو کو تین دن بعد مارشل لاء ریگولیشن 12 کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

بھٹو کو بالآخر موت کی سزا سنائی گئی اور 4 اپریل 1979 کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

بے نظیر بھٹو کو اپنی والدہ سمیت جنرل ضیاء کی فوجی حکومت نے بار بار قید کیا۔ پاکستان کے ’ڈان‘ اخبار کے حوالے سے ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے لکھا کہ مئی 1998 میں لاہور ہائی کورٹ کے احتساب بینچ نے بے نظیر بھٹو کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

جون 1998 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بے نظیر بھٹو کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

جولائی 1998 میں احتساب بینچ نے بے نظیر بھٹو کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور دوبارہ اپریل 1999 میں انہیں پانچ سال کی سزا سنائی گئی اور احتساب بینچ نے عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیا۔

فیصلے کے وقت وہ ملک سے فرار ہوگئی تھیں اور بعد میں ایک اعلیٰ عدالت نے ان کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

اکتوبر 1999 میں احتساب بینچ نے ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے کیونکہ وہ اثاثہ جات ریفرنس کیس میں عدالت میں پیش نہیں ہوئیں۔

بے نظیر کو نومبر 2007 میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر لطیف کھوسہ کے گھر پر ایک ہفتے کے لیے دوبارہ نظر بند کر دیا گیا تاکہ انہیں جنرل مشرف کی آمرانہ حکومت کے خلاف ایک بڑے احتجاج کو منظم کرنے سے روکا جا سکے۔ ایک اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 1999 میں جلاوطن کر دیا گیا، 2007 میں نظر بند کر دیا گیا، 2017میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا اور ایک سال بعد سات سال قید کی سزا سنائی۔ 2019 میں نواز شریف نے کرپشن کیس میں ضمانت کی درخواست کی اور طبی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے لندن چلے گئے۔

موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو ستمبر 2020 میں انسداد بدعنوانی کے نگراں ادارے، قومی احتساب بیورو نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد گرفتار کرلیا تھا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو نیب نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد کا ٹھیکہ دینے سے متعلق کرپشن کیس میں 2019 میں گرفتار کیا تھا۔

جون 2019 میں پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کو بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جب ایک عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

زرداری کرپشن سے لے کر قتل اور منی لانڈرنگ تک کے الزامات میں 11 سال سے زیادہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ وہ پہلے 1990 سے 1993 اور پھر 1996 سے 2004 تک جیل میں بند رہے۔

وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو بھی جیلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے 70 سالوں سے پاکستان کے بہت سے اہم سیاستدانوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ان میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی بھی شامل ہیں جنہیں 1953 میں لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کی سربراہی میں فوجی تعیناتی کے ذریعے گرفتار کیا گیا تھا اور قادیانی مخالف تحریک میں حصہ لینے پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

تاہم زبردست عوامی دباؤ نے بالآخر حکومت کو دو سال قید کے بعد رہا کرنے پر مجبور کر د یا تھا۔ قوم پرست رہنما غفار خان کو 1948 میں گرفتار کیا گیا اور سات سال تک جیل میں ڈال دیا گیا۔

1956 میں انہیں مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے قیام کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔

انہیں ایوب خان کی حکومت نے 1964 تک جیل میں رکھا۔ اے این پی کے ولی خان کو 8 فروری 1975 کو پشاور یونیورسٹی کیمپس میں ایک بم حملے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما حیات شیر ​​پاؤ کے قتل کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

اسی طرح بہت سے اعلیٰ بلوچ اور سندھی رہنما جیسے کہ جی ایم سید کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔

جی ایم سید نے اپنی زندگی کے تقریباً تیس سال اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے قید اور نظربندی میں گزارے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کو فوجی حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے بار بار حراست میں لیا گیا۔

بیگم نصرت بھٹو کو 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے دوران اکثر گھر میں نظر بند کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو اکتوبر 1979 میں گرفتار کر کے نو ماہ قید اور پانچ کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔

بعد ازاں انہیں اپریل 1980 میں اپنی سزا پوری کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ انہیں دوسری بار 1986 میں ایک اشتعال انگیز تقریر پر قید کیا گیا اور 1987 میں رہا کر دیا گیا۔

الطاف حسین نے اگست 1987 میں اس شرط پر دوبارہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے کہ ان کی پارٹی کے کارکنوں کی مزید گرفتاریاں فوری طور پر روکی جائیں گی۔

ان کی قید کے دوران، ایم کیو ایم نے 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ انہیں جنوری 1988 میں رہا کیا گیا۔

اسی طرح مریم نواز، حمزہ شہباز، حسین نواز، عبدالعلیم خان، چوہدری پرویز الٰہی، مونس الٰہی، جاوید ہاشمی، فاروق ستار، شیخ رشید احمد، فریال تالپور، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، احسن اقبال، پیر پگارو، خواجہ آصف، خورشید شاہ، پرویز رشید، آغا سراج درانی، سبطین خان، مولانا عبدالستار نیازی، جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل، اصغر خان، جنرل حمید گل، منظور وٹو، فیصل صالح حیات، علی وزیر، عالیہ حمزہ، شیریں مزاری، یاسمین راشد، اعجاز چودھری، محمود الرشید، علی امین گنڈا پور، شاہ محمود قریشی، عمر چیمہ، اسد عمر، فواد چودھری، جمشید چیمہ، علی زیدی، اعظم سواتی، شہباز گل، محسن داوڑ، قاسم سوری، ملائکہ بخاری، خالد خورشید، زلفی بخاری، صداقت عباسی اور فیاض الحسن چوہان وغیرہ نے دن رات جیل میں گزارے۔