تردید سے ابہام پیدا ہوا، قانونی ماہرین، عدالت جائیں گے:پی ٹی آئی

صدر مملکت کے بیان پر قانون ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے بلوں پر دستخط کی تردید سے ابہام پیدا ہوا ہے.

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ نگراں وزیر قانون نے غلط تشریح کی، بل ابھی قانون نہیں بنا، سلمان اکرم راجہ نے کہا نگراں وزراء کی پریس کانفرنس سے واضح ہوگیا کہ بل واپس نہیں بھیجے گئے، اس سے یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ صدر نے بل کی منظوری دے دی ،احمد بلال، اشتر اوصاف، حافظ احسان نے کہا کہ صدر کے شایان شان بیان نہیں، اپنے عملے کیخلاف ایف آئی آر کٹوانی چاہیے، تردید سے مزید سوالات کھڑے ہوئے۔

صدر مملکت عارف علوی کی آرمی ایکٹ بل پر دستخط کی تردید پر جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ صدر عارف علوی کو عملے کیخلاف FIR کٹوانی چاہئے، تردید بڑی عجیب قسم ہے ، اس سے مزید سوالات کھڑے ہوئے ہیں،یہ کوئی صدر مملکت کا شایان شان یہ اسٹیٹمینٹ نہیں ہے

جعلی دستخط کا معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ صدر عارف علوی یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجائیں، کچھ ذرائع کہتے ہیں چار لوگوں پر جعلسازی کا مقدمہ چلے گا،صدر بل پر دستخط کرتے ہیں تو اس کی ایک تصویر بھی ریلیز کی جاتی ہے، ایسے شخص کو صدر کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے جس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ان کو بائی پاس کیا گیا ہے ،دو کشتیوں پر سواری شاید صدر عارف علوی کے لئے مشکل ہوتی جا رہی ہے،یہ بات عدالت میں جانے کی نہیں ہے۔

خصوصی نشریات میں سربراہ پلڈاٹ احمد بلال محبوب،سینئرتجزیہ کار حامد میر،تجزیہ کار حافظ احسان احمد،پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی،ن لیگ کے رہنما عرفان صدیقی اور ماہر قانون اشتر اوصاف نے اظہار خیال کیا۔

سربراہ پلڈاٹ احمد بلال محبوب نے کہا کہ میں صدر مملکت کی تردید سے بہت حیران ہوا ہوں اگر انھوں نے واقعی دستخط نہیں کئے جو ان کو ممکنہ متاثر لوگوں سے معافی مانگنے کے بجائے اور یہ ثابت کرنے کے بجائے کا اب یہ قانون بن گیا ہے اس سے اب لوگ متاثر ہوں گے یعنی جب ایک ایسی چیز ہے جس سے اب کوئی فرار کا راستہ نہیں ہے ، ان کو اپنے عملے کیخلاف دستخط forceکرنے کی FIRکٹوانی چاہیے ان کو معطل کروانا چاہیے اور کہنا چاہیے قانون کیسے بن سکتے ہیں ان کے دستخط کے بغیر اگر انھوں نے دستخط نہیں کئے ہیں ، معافی مانگنے کے بجائے یہ کہنا چاہیے کہ میں اپنے عملے کیخلاف ایف آئی آر کٹواتا ہوں ، میرے جعلی دستخط کئے مجھے دھوکا دیا وہ تو معافی مانگنا شروع کردیا، میں تو حیران ہوا ہوں ، معافی کس بات کی ابھی تو دستخط ہوئے ہیں کوئی application نہیں ہوئی، یہ تردید بڑی عجیب قسم ہے

اس سے مزید سوالات کھڑے ہوئے ہیں بجائے اس کے کہ ان سوالوں کا جواب آتا جن کو انھوں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے ، مجھے اس وقت معلوم نہیں کہ مدت کیا ہے ، لیکن یہ ہے کہ صدر مملکت اس پر دستخط نہیں کرتے ایک مدت کے اندر تو ، اس وقت تو دستخط ہو گئے ہیں ، لیکن اگر دستخط نہیں کئے اور واپس بھی نہیں بھیجے گئے بر وقت تو واقعی مخالفت کی تھی تو اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت ہوگا ، آپ اس کے خلاف اپنی FIRکٹوائیں۔ یہ کوئی صدر مملکت کا شایان شان یہ اسٹیٹمینٹ نہیں ہے جب تک کہ وہ اس سلسلے میں ٹھوس دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ کوئی قانونی کاروائی نہیں کرتے۔نہیں صدر مملکت کے پاس یہ سارے option ہیں کہ پہلے تو وہ پوری تفصیل قوم کے سامنے عام کر کے جس طرح انہوں نے یہ ٹویٹ کیا ہے اور معافی مانگی ہے اس کی وجہ وہ پوری طرح بتائیں کہ انہوں نے کس تاریخ کو عملے کو یہ کہا تھا اور انہوں نے دستخط نہیں کیے تھے کیا

انہوں نے عملے کو زبانی کہا تھایا انہوں نے لکھ کہAfterallان کے پاس ان کی فائل آتی ہے اور ان کو اس فائل میں لکھنا چاہیے کہ اس کو واپس کردیا جائے تاکہ کوئی ریکارڈ رہے اگر انہوں نے صرف زبانی کہا تھا اور پھر بھی ان کے عملے نے دستخط کرکے بھیج دیے ہیں یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ دستخط کرکے بھیج دیے ہیں یا ویسے ہی بھیج دیے ہیں کہ دستخط کا جو وقت ہوتا ہے جس کے اندر انہوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ گزر جائے اور یہ تصور کیا جائے کہ دستخط ہو چکے ہیں تو یہ پوری بات ان کو واضح کرنی چاہیے اور اگر ان کے حکم عدولی ہوئی ہے یا انکے جعلی دستخط ہوئے ہیں تو پھر انہیں قانونی کاروائی چاہیے۔

سینئر تجزیہ کارحامد میر نے کہا کہ دیکھیں صدر عارف علوی صاحب نے جو ان کے کچھ لیگل ایکسپرٹ ہیں وکلا ہیں ان سے صلاح مشورہ بھی کیا ان سے بات چیت بھی کی ہے تو اس کی روشنی میں جو مجھے پتا چلا ہے وہ یہ ہے کہ صدر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ جب یہ بل آئے تھے میں نے بل پڑھیں دیکھے اور اس کے بعد اس میں مجھے جو کچھ چیزوں پر اعتراض تھا ان پر کچھ آئینی ماہرین سے بات چیت بھی کی اور اس کے بعد پھر میں نے اپنے عملے سے کہا کہ یہ بل آپ واپس بھیج دیں ، یہ پرسوں کی بات ہے انھوں نے کہا میں نے ان سے کہا آپ یہ بل واپس بھیج دیں تو عملے نے کہا ہم نے بل واپس بھیج دیئے ہیں اب عملے نے جن لوگوں کو انھوں نے کہا بل واپس بھیج دیں وہ ایک آدمی نہیں ہے وہ کم از کم تین چار لوگ ہیں اور وہ بڑے ہی ذمہ دار لوگ ہیں ، اور اب صدر صاحب کہہ رہے ہیں

انھوں نے مجھے کہاہم نے بل واپس بھیج دیئے ہیں لیکن بعد میں مجھے پتا چلا کہ ان بلز پر دستخط کرکے ان کو قانون بنا دیا گیا ہے ا س کا مطلب یہ ہے کہ صدر صاحب اپنے عملے پر الزام لگا رہے ہیں کہ انھوں نے ان کے جعلی دستخط کئے ہیں تو یہ کوئی اتنا سمپل معاملہ نہیں کہ صدر عارف علوی یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجائیں کہ جی میں نے تو دستخط نہیں کئے میں ان بلز سے اتفاق نہیں کرتا اور یہ تو قانون ہی اتنا سمپل معاملہ نہیں ہے اگر صدر صاحب یہ بات کر رہے ہیں کہ جی میں نے دستخط نہیں کئے تو اس کا مطلب ان کے جعلی دستخط ہوئے تو اس کا مطلب forgery ہوئی ہے جو متعلقہ لوگ ہیں جو کم از کم تین لوگ ہیں کچھ ذرائع کہہ رہے ہیں چار لوگ ہیں تو ان پر forgery کا مقدمہ چلے گا۔

صدر صاحب نے اس سلسلے میں ملک کے ممتاز آئینی ماہر ہیں جو سپریم کورٹ کے وکیل ہیں ان سے صلاح مشورہ بھی کیا ہے اور وہ اس بارے میں ان امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا وہ اس سلسلے میں اپنے عملے پر ، عملے کے تین چار افراد پر forgery کا مقدمہ درج کرائیں گے یا اس بارے میں وہ سپریم کورٹ جائیں گے مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں لیکن یہ کسی بھی صدر کی طرف سے اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ وہ کہہ رہا ہے میں نے تو بل پر دستخط نہیں کئے ۔

جیسا کہ ہمیں جو معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے وکیل سے صلاح مشورہ کیاہے کہ اس سلسلے میں وہ قانونی کاروائی کرنا چاہ رہے ہیں اپنے عملے کیخلاف عدالت میں جانا چاہتے ہیں جب تک وہ یہ کام نہیں کرینگے ،تب تک ان کی جو اسٹیٹمینٹ ہے ابھی تک وہ مشکوک ہے اور یہ کہنا کہ جی میں معافی مانگتا ہوں تو یہ کوئی صدر مملکت کے شایان شان یہ اسٹیٹمینٹ نہیں ہے جب تک کہ وہ اس سلسلے میں ٹھوس دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ کوئی قانونی کاروائی نہیں کرتے۔

حامد میرنے کہا کہ اس میں کچھ sensitiveمعاملات ہیں کیونکہ صدر صاحب جن لوگوں پر الزام لگا رہے ہیں ان میں کچھ لوگوں کو تعلق سول سروس سے نہیں ہے یہ بڑی سنگین نوعیت کا معاملہ ہے آپ کو پتا ہے صدر کا جو عملہ ہوتا ہے اس میں کون کون لوگ شامل ہوتے ہیں اس میں کچھ لوگ جو ہیں وہ سول سروس سے ہیں کچھ لوگ جو ہیں وہ دوسرے لوگ ہیں اس لئے یہ بہت سنگین معاملہ ہے اور اس میں صدر صاحب جب تک دستاویزی ثبوت کے ساتھ بات نہیں کریں گے تو ان کی بات پر شاید کچھ لوگ یقین نہیں کریں گے۔