شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری

سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔

کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر لائیو دکھائی جا رہی ہے۔

شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ کیس میں بینچ تبدیل ہوگیا ہے، اس سے پہلے جسٹس عمر عطا بندیال بینچ میں تھے۔ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی بینچ میں تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سابق بینچ کے 3 ارکان ریٹائر ہوچکے ہیں، سرکار کی طرف سے کون ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل جاوید وینس نے روسٹرم پر آکر وفاقی حکومت کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کی درخواستیں قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کی درخواستیں قابل سماعت ہونے کی مخالفت کرتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن چکا ہے، صحافیوں کو بھی دیکھنا چاہیے کہ قانون کے مطابق بینچز بنتے ہیں۔

چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا کہ گر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو اُسے پارٹی تو بنائیں، اگر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو اتنا تو ہونا چاہیے کہ ہم انہیں بھی سُنیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ شخصیات پر الزام لگا رہے ہیں تو ان کو آپ نے پارٹی کیوں نہیں بنایا؟ ہوسکتا ہے وہ آکر مان لے اور ہوسکتا ہے وہ آکر اپنا کوئی مؤقف پیش کرے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا تھا؟
شوکت عزیز صدیقی کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔

شوکت عزیز صدیقی نے21 جولائی 2018ء کو راولپنڈی بار سے خطاب کیا تھا جس میں انہوں نے حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو11 اکتوبر 2018ء کو عہدے سے برطرف کیا گیا تھا۔

شوکت صدیقی نے 2018ء سے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔

شوکت عزیز صدیقی کی آئینی درخواست پر آخری سماعت 13جون 2022ء کو ہوئی تھی۔

انہوں نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔

100 فیصد انصاف کی توقع ہے: شوکت عزیز صدیقی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے 100 فیصد انصاف کی توقع ہے۔

جیو نیوز کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی سے سوال کیا گیا کہ آج سپریم کورٹ میں کیس لگا ہے، اتنی دیر سے یہ کیس لگا کیا انصاف کی توقع ہے؟ جو آپ نے الزام لگایا اگر سپریم کورٹ کہتی ہے چیزیں سامنے آنی چاہئیں تو اس کے ثبوت ہیں؟

جواب میں انہوں نے کہا کہ ثبوت پہلے سے دیے ہوئے ہیں، الزامات کی تردید نہ ہونا خود بہت بڑا ثبوت ہے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ مستقبل میں عدلیہ کو بیرونی دباؤ سے پاک کرنے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ایسا ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ اس کا انکوائری کمیشن بنائے ڈائریکشن دے تاکہ تحقیقات ہوں۔

ان سے پوچھا گیا کہ آپ پر اس دوران کیا کوئی دباؤ رہا ہے؟

شوکت عزیز صدیقی نے جواب دیا کہ سوا 5 سال میں نے اور میرے خاندان نے بہت مشکل حالات دیکھے۔