پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
پی پی آر اے الزامات، وزیراعظم نے فیک فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دیدی
وزیر اعظم شہباز شریف نے پی پی آر اے کے ملازمین کیخلاف متعدد الزامات کی تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
ملازمین پر عائد کردہ الزامات میں ورلڈ بینک کے پروجیکٹ EPADS (E-Pak Acquisition & Disposal System) سے اعزازیہ کی ادائیگی بھی شامل ہے۔
ہفتے کو اس معاملے پر دی نیوز میں خبر شائع ہونے کے بعد وزیر اعظم نے چیئرمین پرائم منسٹر انسپکشن کمیشن (پی ایم آئی سی) بریگیڈیئر (ر) مظفر علی رانجھا کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ارکان میں ممبر پرائم منسٹر انسپکشن کمیٹی، اسپیشل سیکرٹری کامرس ڈویژن، ایڈیشنل سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس ڈویژن اور ڈائریکٹر لیگل پی پی آر اے شامل ہیں۔
کمیٹی تفویض کردہ کام کو انجام دینے کیلئے کسی دوسرے رکن کو شریک کر سکتی ہے۔ کمیٹی کے شرائط کار (ٹی او آرز) یہ ہیں: ۱) پی پی آر اے میں غبن، اختیارات کے غلط استعمال اور بدعنوانی سے متعلق الزامات / شکایات کے تمام پہلوؤں کی چھان بین کرنا، ۲) مالی سال 2020-21سے 2023-24کے دوران پراجیکٹ کے کاموں سے متعلق مختلف اسائنمنٹس پر تعینات پی پی آر اے ملازمین کو دیے گئے اعزازیہ کے بارے میں تحقیقات کرنا۔
وزیر اعظم آفس کے نوٹیفکیشن کے مطابق کابینہ ڈویژن کمیٹی کو سیکرٹریٹ کی معاونت فراہم کرے گا اور کمیٹی وزیر اعظم کیلئے سات روز میں نتائج اور سفارشات پیش کرے گی۔
دی نیوز میں شائع ہونے والی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے مینیجنگ ڈائریکٹر پی پی آر اے نے ہفتہ کو وزیراعظم آفس کو ایک خط لکھا، جس میں وزیراعظم کو مطلع کیا گیا کہ تمام الزامات کی تحقیقات کیلئے ایم ڈی پی پی آر اے کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پہلے ہی تشکیل دی جاچکی ہے۔ تاہم وزیراعظم آفس نے پھر بھی پی ایم آئی سی سے معاملے کی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔
دی نیوز میں شائع ہونے والی خبر میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ورلڈ بینک کے قرض سے لاکھوں روپے پی پی آر اے نے اپنے ملازمین کو اعزازیہ کی صورت میں ادا کیے۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ پی پی آر اے کا معاملہ وزیر اعظم آفس اور کابینہ ڈویژن کے نوٹس میں آ چکا ہے، اتھارٹی پر الزام ہے کہ ملازمین کیلئے ورلڈ بینک کے قرض کا غلط استعمال کیا گیا، جبکہ عہدیداروں کیخلاف خریداری کے معاملات میں بدعنوانی کے سنگین الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ ان سب سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ان پر دھوکا دہی، سرکاری دستاویزات میں چھیڑ چھاڑ، جعلی دستاویزات کی تیار، بلیک میلنگ وغیرہ کے بھی الزامات ہیں جن کی تاحال تفتیش نہیں ہو سکی۔
خبر میں بتایا گیا تھا کہ پی پی آر اے میں افسران کے دو گروپس ہیں، ایک وہ جنہوں نے اعزازیہ وصول کیا جبکہ دوسرا وہ جنہوں نے اعزازیہ وصول نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں گروپوں کی لڑائی اور ایک دوسرے پر سنگین الزامات کی بازگشت وزیر اعظم کے دفتر تک جا پہنچی ہے۔
ہفتہ کو وزیر اعظم کے دفتر سے اپنی خط و کتابت میں ایم ڈی پی پی آر اے نے لکھا ہے کہ ورلڈ بینک کا پروجیکٹ پبلک فنانشل مینجمنٹ ریفارم اسٹریٹجی (2017-2028) کے 6؍ ستونوں میں سے ایک کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔
منصوبے کی کل لاگت 12.5؍ ارب روپے ہے۔ اب تک کے اخراجات 450 ملین روپے، واجب الادا ادائیگیاں 550ملین روپے، کل متوقع لاگت ایک ارب روپے اور متوقع بچت 11.5؍ ارب روپے ہے۔
وزیراعظم آفس کو بتایا گیا کہ مالی سال2020-21سے2023-24کے دوران پراجیکٹ آپریشنز سے متعلق مختلف اسائنمنٹس پر تعینات پی پی آر اے ملازمین کو سات کروڑ 48؍ لاکھ روپے بطور اعزازیہ دیے گئے۔
پی پی آر اے کے ملازمین کو مبینہ طور پر عملے کی کمی کی وجہ سے منصوبے میں مختلف ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 24 منظور شدہ ملازمین میں سے سات پروجیکٹ ملازمین کام کر رہے تھے۔