پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
فوجی ترجمان کے بیان سے عمران خان کی قسمت پر بڑا سوالیہ نشان لگ گیا
اس سوال کا جواب اب تک نہیں ملا کہ کیا لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کیس کے سلسلے میں عمران خان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا یا نہیں لیکن یہ واضح ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کیلئے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
جمعرات کو اپنی پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا کہ کیا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے عمران خان کو فوجی حکام کے حوالے کیا جائے گا یا نہیں۔ انہوں نے اس امکان کی تصدیق کی نہ تردید۔
یہ سوال جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی کارروائی کے تناظر میں پوچھا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو خدشہ تھا کہ عمران خان کو فوجی تحویل میں دیا جا سکتا ہے اور ممکنہ طور پر اُن پر آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں کیس چلایا جا سکتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے جواب میں کہا کہ پوچھا جانے والا سوال فرضی ہے اور اس معاملے سے متعلق ہے جو زیر سماعت ہے۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ فوجی قانون کے تحت اگر کوئی فرد آرمی ایکٹ کے تابع کسی کو ذاتی یا سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے اور اس ضمن میں کوئی ثبوت موجود ہیں تو قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر فوجی حکام کو ثبوت ملتا ہے کہ عمران خان نے جنرل فیض حمید کو اپنے (عمران خان) کے ذاتی یا سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا تو عمران خان کو ٹرائل کیلئے فوجی تحویل میں دیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ڈی جی آئی ایس پی آر نے عمران خان اور جنرل فیض کے درمیان کسی رابطے پر براہ راست تبصرہ نہیں کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نوید مختار کے جنرل فیض کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر ترقی دینے اور تعینات کرنے میں فوج کا نظریہ بھی پوچھا گیا۔
اس کے جواب میں فوجی ترجمان نے جواباً سوال کیا کہ آئی ایس آئی کا براہ راست باس کون ہے؟ آپ نے اُس وقت کے وزیراعظم کے بارے میں بات کیوں نہیں کی؟ فوج کے سخت اور شفاف احتسابی نظام پر زور دیتے ہوئے انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ نظام محض الزامات کی بنیاد پر نہیں چلتا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فوجی احتساب کا نظام ٹھوس شواہد پر مبنی ہے۔ جنرل فیض کی گرفتاری کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی سابقہ پریس ریلیز کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افسر (جنرل فیض) نے ذاتی مفادات اور مخصوص سیاسی عناصر کے کہنے پر اپنی آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بغیر کسی ثبوت دوسروں کو اس افسر کی خلاف ورزیوں سے جوڑنا ناانصافی ہوگی جنہوں نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کیا۔ جنرل باجوہ اور جنرل مختار سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا جواب واضح طور پر بتاتا ہے کہ دونوں ریٹائرڈ جرنیلوں کو جنرل فیض کے کیس میں ملوث کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔