الیکشن کمیشن کا تیسرا اہم اجلاس بھی بے نتیجہ رہا

مخصوص نشستوں کے کیس کے حوالے سے غور کے لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر صدارت الیکشن کمیشن کا تیسرا اہم اجلاس بھی بے نتیجہ رہا ۔

ذرائع کے مطابق قانونی ٹیم نے بریفنگ میں بتایا کہ انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم کئے بغیر کسی جماعت کو سیٹیں کیسے دی جاسکتی ہیں‘ انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم نہ ہونے تک پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ ہی نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن حکام اب جمعہ کوچوتھی بار اس معاملے پر سر جوڑیں گے۔ادھروفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔جن ارکان نے سنی اتحاد کونسل جوائن کی وہ دوبارہ تحریک انصاف میں کیسے جاسکتے ہیں ‘ کسی بھی ادارے کو آئین کی من پسند تشریح کا حق حاصل نہیں‘ آئین میں قانون سازی اور ترامیم کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہے۔

جمعرات کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آئین میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہے، یہ اختیار کسی دوسرے ادارے کے پاس نہیں‘ جب آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی باری آئی تو کہا گیا کہ ووٹ کاسٹ کیا جائے گا لیکن گنا نہیں جائے گا، اس کے ذریعے حمزہ شہباز شریف کی پنجاب میں حکومت کو ختم کر دیا گیا، لوگوں کو ڈی سیٹ کیا گیا اور ملک میں ضمنی انتخابات کروائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ غلطی تحریک انصاف سے ہوئی تھی، تحریک انصاف کے مبینہ ممبران کو چاہئے تھا کہ وہ کسی ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے جس کا وجود پارلیمان میں موجود ہوتا لیکن انہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی جس کا ایوان میں وجود ہی نہیں تھا اور پھر ایک فیصلے کے ذریعے انہیں یہ حق دے دیا گیا کہ آپ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں۔ کسی پارٹی میں شامل ہونے والا رکن دوبارہ کسی دوسری جماعت میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؟کیا یہ فلور کراسنگ نہیں ہے؟ آرٹیکل 63 اے کی تشریح اپنی منشاء کے مطابق کر دی جاتی ہے۔