پیجرز کہاں سے آئے؟ معاملہ تائیوان اور ہنگری سے بلغاریہ اور ناروے تک پھیل گیا

لبنان دھماکوں میں استعمال ہونے والے ہزاروں پیجرز بنانے والوں کی بین الاقوامی تلاش کا سلسلہ تائیوان اور ہنگری سے ہوتا ہوا اب بلغاریہ اور ناروے تک پھیل گیا ہے۔

برطانوی خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ تاحال یہ سوال معمہ بنا ہوا ہے کہ لبنان میں دھماکوں کیلئے استعمال ہونے والے پیجرز میں بارودی مواد کس نے اور کہاں شامل کیا تاہم ایسے اشارے ضرور مل رہے ہیں کہ ممکنہ طور یہ کام ہنگری، تائیوان یا پھر بلغاریہ میں کیا گیا۔

خبر ایجنسی کے مطابق پیجرز معاملے سے جڑے سوالوں کے ممکنہ جواب کی تلاش میں مختلف مفروضے زیر گردش ہیں ایک کے مطابق پیجر ڈیوائسز میں بارودی مواد فیکٹریوں سے نکلنے کے بعد شامل کیا گیا جبکہ دوسرے مفروضے کے تحت اسرائیل نے ہی پوری سپلائی چین کی منصوبہ بندی کی اور اسے عملی طور پر ممکن بنایا۔

خبر کے مطابق بلغارین حکام کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ایک کمپنی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جس کے پیجرز معاملے سے جڑی کمپنیوں کے ساتھ روابط کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

بلغارین حکام کی جانب سے مذکورہ کمپنی کا نام ظاہر نہیں کیا نہ ہی کمپنی سے متعلق کوئی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔

برطانوی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بلغاریہ کے لوکل میڈیا کا کہنا ہے کہ بلغارین دارالحکومت سوفیا میں واقع نورٹا گلوبل لمیٹڈ نامی کمپنی نے حزب اللہ کو پیجرز فروخت کرنے کیلئے سہولت کاری کی تھی، اس سلسلے میں 1.6 ملین یوروز بلغاریہ سے ہنگری منتقل کیے گئے۔

خبر ایجنسی کا کہنا تھا کہ کمپنی کے بانی نے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا جبکہ نورٹا گلوبل لمیٹڈ کی ای میل ایڈریس پر بھیجی گئی درخواستیں بھی ڈیلیور نہیں ہو پائیں۔

رپورٹ کے مطابق معاملے کی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ نورٹا گلوبل کمپنی کا ہیڈکوارٹر بلغاریہ کے دارالحکومت سوفیا کی ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رجسٹرڈ ہے، اس کے باہر کمپنی کا کوئی سائن نصب نہیں ہے۔

خبر کے مطابق کمپنی ہیڈ کوارٹرز کے ایڈریس پر ولادیمیر کزمانوف نامی ایک وکیل موجود تھا جس نے خود کو کمپنی کا وکیل ظاہر کیا تاہم انہوں نے خبر ایجنسی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دینے سے معذوری ظاہر کردی۔

خبرایجنسی نے دعویٰ کیا کہ کمپنی کی ویب سائٹ ’globalnorta.com‘ جمعرات کو ڈیلیٹ کردی گئی، اس سے قبل ویب سائٹ انگریزی، بلغارین اور نارویجئن زبانوں میں دستیاب تھی، جس پر کمپنی کی جانب سے کنسلٹنگ، ٹیکنالوجی انٹیگریشن، ریکروٹمنٹ اور آؤٹ سورسنگ جیسی خدمات کی ایڈورٹائزنگ کی گئی تھیں۔

خبر کے مطابق کمپنی کے بانی رنسن جوز ناروے سے تعلق رکھتے ہیں، ان سے جب بلغارین بزنس اور پیجرز کے معاملے سےمتعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

اوسلو میں رنسن جوز کے پڑوسیوں کا کہنا تھا کہ وہ ان کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتے، تاہم ڈی این میڈیا کے سی ای او امنڈ جوو کا کہنا تھا کہ رنسن جوز ان کے پاس کام کرتے ہیں اور انہیں معاملے سے متعلق کچھ آگاہی مل گئی تھی جس کے بعد انہوں نے ہی پولیس کو اطلاع دی تھی کہ رنسن جوز امریکا جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

اوسلو پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے ابتدائی معلومات کی روشنی میں معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے جبکہ ناروے کی مقامی انٹیلی جنس ایجنسی نے بھی معاملے سے آگاہی کی تصدیق کی تاہم مزید تبصرے سے گریز کیا

خبرایجنسی کے مطابق پیجرز معاملے سے جڑی بی اے سی نامی ہنگرین کمپنی کی سی ای او کرسٹیانا بارسونی نے بھی بڈاپسٹ میں اپنا اپارٹمنٹ بدھ کے روز خالی کردیا تھا۔

ان کے پڑوسیوں نے بتایا کہ بدھ کے روز ان کا دروازہ کھلا تھا تاہم اگلے روز بند ہو گیا اور بیل بجانے پر اندر سے کوئی جواب نہیں دے رہا تھا۔

خبر ایجنسی کے مطابق لبنانی ذرائع نے بتایا تھا کہ حزب اللہ کو یقین تھا کہ وہ پیجرز گولڈ اپولو سے خرید رہے ہیں جو کہ ایشیا میں بنائے جائیں گے نا کہ یورپ میں، حزب اللہ کا خیال ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کیلئے ہنگری سے آپریٹ کرنا زیادہ آسان ہے اس لیے ممکن ہے کہ موساد نے ہی یورپین کمپنیاں بنائیں۔

دوسری جانب سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ اسرائیل ہی پیجر دھماکوں میں ملوث تھا، جس میں 14 افراد ہلاک جبکہ 4 ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔