سیاسی تخت کی وراثت؟:سہیل وڑائچ

گزشتہ چار دہائیوں سے سیاسی منظر پر چھائی شخصیات اپنی اپنی اننگز کھیل چکیں، ان میں سے اکثر 70 کے پیٹے میں ہیںلیکن ابھی تک کم از کم دو بڑی جماعتوں میں یہ طے نہیں ہوا کہ اُن کا اگلاسیاسی وارث کون ہوگا؟مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کو ابھی طے کرنا ہے کہ ان جماعتوں کی مستقبل کی سیاست کس کے ہاتھ میں دی جائے گی۔ دنیا بھر کی سیاست میں یہ اصول رائج ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے کردیاجاتا ہے کہ بڑھاپے کی صورت میں یا کسی ناگہانی واقعے کے بعد پارٹی کس کو اپنا لیڈر چنے گی؟ تضادستان میں چونکہ وراثتی سیاست کا زور ہے اس لئے یہاںبھی جانشین طے ہونے چاہئیں مگر پارٹیوں کو چلانے والی بوڑھی نسل اقتدار اور اختیار ابھی آگے دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔

اصولی باتیں ایک طرف، نظریات کو بھی چھوڑیں سچ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کا دوسرا نام ہے۔ آج بلاول پارٹی کا نام بدل کر بلاول لیگ رکھ لے تو سارے جیالے اس پارٹی میں چلے جائیں گے، اسی طرح مسلم لیگ بھی شریف خاندان کا دوسرا نام ہے، نواز شریف ہوں یا ان کے بھائی شہباز شریف یا پھر مریم اور حمزہ سبھی مسلم لیگ ن کےستارے ہیں اور جب بھی پارٹی کا کوئی وارث مقررہوگا وہ شریف خاندان ہی میں سے ہوگا۔ تحریک انصاف لاکھ کہتی رہے کہ وہ وراثتی سیاست پر یقین نہیں رکھتی مگر حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی بہن علیمہ خان کوئی عہدہ نہ ہونے کے باوجود سب پارٹی عہدیداروں پر بھاری ہیں۔ عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی تو حکومت کے دنوں میں حکومت اور پارٹی کے معاملات میں فائنل اتھارٹی رکھتی تھیں ،گویا عمران خان وراثتی سیاست سے لاکھ انکار کریں ان کا وارث بھی انہی کے خاندان سے ہوگا تو لوگ اُسے مانیں گے ورنہ پارٹی کے اندر تقسیم پیدا ہو جائے گی۔

تضادستان میں خالص مذہبی سیاست ہو یا خالص سیکولر سیاست دونوں میں خاندانی وارث ہی جانشین ٹھہرتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود کے وارث مولانا فضل الرحمٰن بنے، اب ماشاءاللہ ان کے بیٹےاسعد محمود اگلی جانشینی کیلئےتیار ہیں۔ اے این پی سیکولر جماعت ہونے کےباوجود اسی طریقے پر گامزن ہے غفار خان کے جانشین ان کے فرزند ولی خان ٹھہرے، ولی خان نے اپنے بیٹے اسفندیار کو آگے کیا اور اب اسفند یار ولی کے بیٹے ایمل ولی خان اے این پی کے مدارا لمہام بن چکے ہیں۔

فلسفیانہ بحث ایک طرف کہ کیا سیاست میں اس طرح کی وارثت ہونی چاہیے یا نہیں؟ مگر عملی طور پر تضادستان میںیہی کچھ چل رہا ہے اور مستقبل قریب میں اس میں تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں۔ علامہ اقبال کو جانشینی کے اس طریقے سے یہ اختلاف تھا کہ ضروری نہیں اہل باپ یا ماں کا بیٹا بھی اتنا ہی اہل ہو، اسی لئے انہوں نے فرمایا تھا:

میراث میں آئی ہے اِنہیں مسندِ ارشاد

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن

ملک کی بڑی جماعتوں میں سب سے پرانی پاکستان پیپلز پارٹی ہے جہاں محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت کےبعدبلاول بھٹو زرداری کو پارٹی چیئرمین شپ مل چکی ہے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اوربہترین تربیت یافتہ ہیں، آج کی سیاست میں موجود نوجوان سیاست دانوں میںسب سے زیادہ ٹیلنٹڈ بھی ہیں مگر وہ وزیر اعظم تبھی بن سکتے ہیں جب ان کی پنجاب میں بھی پذیرائی ہو۔ بلاول بھٹو ابھی تک پنجاب میں کوئی نیا ووٹر اپنےساتھ نہیں ملا سکے۔ بلاول بھٹو کی وارثت کا معاملہ اگرچہ حتمی اور طے ہے تاہم ان کی بہن آصفہ بھٹو کے بھی بہت سے حامی موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ آصفہ کو آگے آنے کا موقع دیا جائے تو وہ بہتر پرفارم کرسکتی ہے بظاہرپارٹی اور خاندان پر بلاول بھٹو کا مکمل کنٹرول ہے اس لئے موجودہ صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

وراثت اور جانشینی کا سب سے بڑا مسئلہ تحریک انصاف میں ہے تحریک انصاف کا تو نعرہ ہی وراثتی اور خاندانی سیاست کے خلاف ہے مگر اس سب کےباوجود بالآخر جانشینی خاندان میں ہی جانی ہے، کئی انصافیوں کا خیال ہے کہ ان کی جماعت مراد سعید، عمر ایوب، گوہر علی یا اسد قیصر جیسے لوگوں کو جانشین بنا کر سب کو حیران کر دے گی مگر عملی طور پر یہ سب دعوےغلط ہیں ،آج بھی علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کا رتبہ تمام پارٹی عہدیداروں سے بڑا ہے وہ دونوں جسے چاہتی ہیں ڈانٹ دیتی ہیں۔ کبھی کبھی عمران کے بھانجوںحسان نیازی اور شیر علی کے نام بھی متوقع جانشینوںکے طور پر لئے جاتے ہیں مگر پارٹی کے اندر سے ملنے والی اطلاعات اور تجزیوںسے یہی پتہ چلتا ہے کہ اگر کبھی جانشینی یا وراثت کا مسئلہ آیا تو اس دوڑ میں سب سے آگے علیمہ خان ہوں گی، کہا جاتا ہے کہ وہ عمران خان کی ہو بہو زنانہ کاپی ہیں۔ دوسری طرف بشریٰ عمران بھی عمران پر بہت اثر رکھتی ہیں۔ بھٹو مشکل میں آئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ نصرت بھٹو کو آگے کردیا ، نواز شریف مشکل کا شکار ہوئے تو وہ گھریلو خاتون کلثوم نواز کوباہر لے آئے، تاہم عمران خان نے فی الحال ایسا نہیں کیالیکن انہوں نے پارٹی جن کے حوالے کر رکھی ہے وہ ایک عارضی اور مصنوعی انتظام لگتا ہے، اگر وہ خاندان کا کوئی فردا ٓگے نہ لائے تو ان کے بعد پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔

مسلم لیگ نون میں شریف خاندان کوسپریم حیثیت حاصل ہے ،نواز شریف کو شروع سے لے آج تک واحد اور متفقہ لیڈر مانا جاتا ہے ان کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے شریف خاندان میں رتبے کے اعتبار سے نواز شریف کے بعد شہباز شریف ہیں تاہم شہباز شریف نےاپنے بڑے بھائی کی عزت اور پیروی والد کی طرح کی ہے۔ ایک زمانے میں شریف خاندان کی اگلی نسل میں سے صرف حمزہ شہباز شریف متحرک تھے۔ 2008ء، 2009ء تک نواز شریف خود کہتے تھے میرا سیاسی جانشین حمزہ ہوگا لیکن پانامہ اور بعد کے حالات نے انہیں فیصلے پر نظرثانی پر مجبورکر دیا ،کہا جاتا ہے کہ شریف خاندان کا اتفاق مثالی ہے مگر پانامہ کے مشکل دنوں میں اور بالخصوص راحیل شریف اور جنرل باجوہ سے نواز حکومت کی لڑائی کے دوران انہیں شہبازخاندان سے جس قدر پرزور حمایت کی توقع تھی وہ نہ ملی ،دوسری طرف کلثوم نواز خاندانی سیاست میں بہت اثر و رسوخ کی حامل تھیں انہوںنے ان مشکل حالات میں مریم نواز کی تربیت بھی کی اور انہیں والد کی سیاست میں شریک بھی کردیا یہی وہ دن تھے کہ مریم نواز شریف والد کی حقیقی سیاسی شاگرد بن گئیں، نواز حکومت کا اقتدار ختم ہوا تو مریم نے جرأت رندانہ سے کام لیا، ان کی شخصیت میں کرشماتی بدلائو آیا، انہوں نے جیل کی سختیاںبھی جھیلیں اور والد سے کاروبارِ حکومت کی گتھیاں سلجھانا بھی سیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ 2024ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف نے اگلی نسل میں سے حمزہ کی بجائے مریم نواز کو وزیرِ اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔ بظاہر نوازشریف کا یہ فیصلہ شہباز خاندان نے بھی صبر اور تکلیف کے ملے جلے جذبات سے مان لیا ہےلیکن نون کی جانشینی کے حوالے سے اب بھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے جس طرح نون کے حتمی فیصلوں کا اختیار نوازشریف کےپاس ہمیشہ رہا اورسب ان فیصلوں کو بسر وچشم مانتے رہےہیں، کیا اگلی نسل مریم نواز کوبھی اسی طرح لیڈر مان کر انکے پیچھے چلے گی؟ ابھی یہ طے نہیں ہوسکا ،اگر تو مریم بطورِ وزیر اعلیٰ شاندار کارکردگی دکھا گئیں تو پھر والد کی قیادت کی دَستارا نہیں ملے گی لیکن اگر وہ حمزہ جیسے عوامی رابطے نہ رکھ سکیں تو پھر جانشینی کے حوالے سے ایک نئی کش مکش ہوگی۔ آخر میں دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ کاش اگلی نسل میں سے کوئی تو ایسا ہو جو ملک کو فلاحی مملکت بنا کر قائداعظم محمدعلی جناح کا خواب پورا کرے……!