برطانیہ۔3: خالد ارشاد صوفی

برطانیہ۔3
خالد ارشاد صوفی
27اکتوبر 2024ء اتوار کے روز چھٹی کے باوجود برادرم رضوان سلہریا نے اپنے ادارے انٹرنیشنل بزنس اینڈ پروفیشنل کارپوریشن کے دفتر میں چند معروف کاروباری شخصیات اور برطانیہ میں فلاحی سرگرمیوں میں متحرک فلاحی ادارے دین ٹرسٹ کے صدر جناب رانا دین کو مدعو کر رکھا تھا۔

یہ ایک روشن صبح تھی کانفرنس ہال میں شرکاء گرم کافی اور کروسینٹ(Croissant) سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور میں انہیں کم وسیلہ مگر باصلاحیت طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم سے ہمکنار کرنے کے لیے کاروان علم فاؤنڈیشن کی کاوشوں سے آگاہ کر رہا تھا۔ پاکستان میں فروغِ تعلیم، نوجوانوں کو فعال شہری اور ملک کو خوشحال و مستحکم بنانے کے حوالے سے تفصیلی گفتگو دوپہر تک جاری رہی۔ اس نشست کے اختتام پرایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں پُر تکلف ظہرانے کا انتظام تھا مگرروشن دن(Sunny Day) کو دیکھتے ہوئے احباب نے مجھے سیاحت کے لیے سینٹرل لندن(Central London) جانے کا مشورہ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر کے پورے مہینے میں آج پہلا دن ہے جب مطلع اتنا صاف اورروشن ہے۔ میں دفتر کے سامنے زیرِ زمین ٹرین اسٹیشن سے ویسٹ منسٹر اسٹیشن (Westminster station)کے لیے روانہ ہو گیا۔
لندن ٹیوب کا شمار دنیا کے بہترین زیرِ زمین ٹرانسپورٹ سسٹم میں ہوتا ہے، جسے ”لندن سب وے(London Subways)” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نظام آج دنیا کے سب سے قدیم اور سب سے وسیع سب وے نیٹ ورکس(Subways Networks) میں شمار ہوتا ہے۔یہ 270 سے زائد اسٹیشنز پر مشتمل ہے اور اس کی مختلف لائنیں شہر کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ لندن ٹیوب کے ذریعے لاکھوں افراد روزانہ شہر کے مختلف حصوں میں سفر کرتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا پیچیدہ لیکن انتہائی مؤثر نیٹ ورک ہے اور اس کا دائرہ شہر کے بیشتر اہم مقامات تک پھیل چکا ہے۔ اس کے ذریعے سیاح اور مقامی افراد آسانی سے شہر کے مختلف حصوں میں سفرکرتے ہیں اگر آپ ڈے پاس (Day Pass) بنوالیں تو اس کے ذریعے آپ پورا دن ٹیوب استعمال کر سکتے ہیں۔ برطانیہ قیام کے دوران مجھے متعدد بار اس تیز رفتار ٹرین سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔
لندن کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔1572مربع کلومیٹر پر پھیلے اس شہر کی آبادی ایک کروڑ نفوس پر مشتمل ہے یوں شہر کے ہر حصے میں لوگوں کا ہجوم اور ہر سٹرک پر گاڑیوں کی قطاریں ملتی ہیں۔ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹرین اور بس کے ذریعے پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
لندن کی سیاحت کا اہم مرکز لندن آئی (London Eye) اور بگ بین(Big Ben) کا سنگمہے۔135 میٹر اُونچے اس جھولے کا شمار دنیا کے دنیا کے بلند ترین جھولوں میں ہو تا ہے۔ اس جھولے کو لندن آئی (لندن کی آنکھ) اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے اُوپر بیٹھ کر آپ سینٹرل لندن کے اہم مقامات اور عمارتوں کے دلکش نظارے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
لندن آئی دریائے تیمز(River Thames)کے کنارے ایستادہ ہے۔ اس کے ارد گرد کئی اہم مقامات اور عمارتیں واقع ہیں، جیسے کہ ویسٹ منسٹر پیلس(Palace of Westminster)،بگ بین(Big Ben)، اور ٹرافلگر اسکوائر(Trafalgar Square)۔ ان مقامات کے علاوہ لندن آئی کے قریب شیکسپیئر گلڈ ہال(Shakespeare’s Guildhall)، ساوتھ بینک سینٹر(South Bank) او قومی تھیٹر جیسے ثقافتی مرکز بھی ہیں، جہاں مختلف ثقافتی تقریبات اور فنونِ لطیفہ کی نمائش کی جاتی ہے۔
دریائے تیمز(River Thames) کے پُل اور گردو نواح کا علاقہ سیاحوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتا ہے جہاں آپ نا صرف لندن آئی کی سواری کا لطف اٹھا سکتے ہیں بلکہ شہر کے مختلف تاریخی مقامات کی سیر بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں مختلف ریستوران، کیفے اور خریداری کے مراکز بھی ہیں۔
میں ویسٹ منسٹر اسٹیشن سے باہر نکلا تو ایک رومانوی منظر میرا منتظر تھا۔ بلندو بالا عمارتوں اور لندن آئی کو جاتی سٹرک پرگہرا سکوت طاری تھا۔ درختوں کے پتوں نے سنہری زرد رنگ اُوڑھا ہو اتھا اور اسی رنگ کے پتوں نے فٹ پاتھ کو ڈھانپ رکھا تھا۔ میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔خیال کے ایوانوں سے خزاں رُت کی ترجمانی کرتے کئی شعر زبان تک آنے کو مچل رہے تھے۔
جمیل ملک کی غزل کا مطلع یاد آیا۔
آؤ پت جھڑ میں کبھی حال ہمارادیکھو
خشک پتوں کے سلگنے کا تماشا دیکھو
زرد پتوں سے نظر اُوپر اُٹھی تو سامنے لندن آئی دریائے تیمز کے دوسرے کنارے پر ایستادہ تھا۔ میں اس کنارے کے ساتھ ساتھ چلتا پُل پر پہنچ گیا۔ وہی مقام جہاں دنیا بھر سے آنے والے مسافر ہر لمحہ تصاویر لینے میں مشغول رہتے ہیں۔
میں بھی پُل کی دیوار کے ساتھ کھڑے اس منظر کے حسن کو عکس بند کرنے لگا۔نیچے دریا رواں تھا، سامنے لندن آئی کے جھولے سیاحوں کو بلندی پر لے جا رہے تھے اور اس کے مقابل بگ بین(Big Ben) سربلندتھا۔
یہاں سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر لندن برج(London Bridge)میری اگلی منزل تھی۔ٹرین اسٹیشن سے باہر نکلا تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ بلندو بالا عمارتیں جگمگا رہیں تھیں اور دریائے تیمزکے دونوں کنارے اورپُل کی عمارت روشنیوں میں نہا رہی تھی۔ میں ایک بنچ پر بیٹھ کر کتنی دیر جگمگاتے پُل کا نظارہ کرتا رہا۔
اس پُل (London Bridge) کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس نے کئی سیلابوں، جنگوں اور قدرتی آفات کا سامنا کیا،کئی بار تعمیر ہوا اور اب یہ انجینئرنگ کے ایک شاہکارکے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کے نیچے سے سیاحوں سے لدی کشتیاں گزر تی رہتی ہیں اور کبھی بڑی کشتی نے گزر نا ہو تویہ دو حصوں میں ایسے تقسیم ہو جاتا تھا جیسے الماری کے پاٹ کھلتے ہوں۔
شہر کے شمال اور جنوب کو ملانے والے اس پُل پر مسافروں کے ہجوم سے گزر کر میں دوبارہ ٹیوب اسٹیشن پہنچا جہاں سے ہوٹل کے لیے ٹرین پر سوار ہونا تھا۔
موجودہ دورہ برطانیہ میں سیاحت کے لیے یہی چند گھنٹے ہی مِل سکے،آنے والے دنوں میں ٹی وی چینلز پر انٹرویوز، مختلف شہروں میں تقریبات اور ملاقاتوں کا ایک سلسلہ میرا منتظر تھا۔