ٹرمپ کی ٹیرف وار:خالد ارشاد صوفی

ٹرمپ کی ٹیرف وار

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف یعنی محصولات بڑھانے کے اعلان کے بعد سٹیل اور ایلومینیم کی امریکہ درآمد پر ٹیکس یا ٹیرف کی شرح 25 فیصد ہو چکی ہے۔ انہوں نے 2018ء میں اس شعبے کی مدد کے لیے 10 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا۔ اب صدر ٹرمپ نے سٹیل اور ایلومینیم کی لاکھوں ٹن درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف دوبارہ عائد کر دیا ہے۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ اس شرط سے چین میں پراسیس شدہ سٹیل کی امریکہ درآمد کو روکا جا سکے گا۔ ٹرمپ کے تجارتی مشیر پیٹر نوارو (Peter Navarro) کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے امریکی سٹیل اور ایلومینیم پروڈیوسرز کو مدد ملے گی اور امریکہ کی معیشت اور قومی سلامتی کو تقویت حاصل ہو گی۔ ٹیرف بڑھانے کے اعلان کے فوری اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ اس اعلان کے بعد بھارتی سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ہے اور سٹیل اور ایلومینیم انڈسٹری کے آگے سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔

ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے نئے ٹیرف کے نتیجے میں بھارت کی ایلومینیم برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال بھارت نے تقریباً ایک لاکھ ٹن سٹیل امریکہ کو برآمد کیا تھا۔ کینیڈا اور برازیل گذشتہ سال امریکہ کو سب سے زیادہ سٹیل اور ایلومینیم فراہم کرنے والے ممالک تھے (امریکہ میں سٹیل کی کھپت کا کم و بیش 49 فیصد) اور ظاہر ہے کہ اس فیصلے سے وہی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

مارچ 2024ء سے جنوری 2025ء کے عرصے میں یعنی نو دس ماہ کے دوران امریکہ نے کل 25 ملین ٹن سٹیل درآمد کیا۔ اس میں سے 5.47 ملین ٹن کینیڈا نے فراہم کیا۔ 3.74 ملین ٹن برازیل نے دیا جبکہ میکسیکو نے 2.9 ملین ٹن سٹیل امریکہ کو فراہم کیا۔ کینیڈا کے سٹیل مینوفیکچررز نے ٹرمپ کے اعلان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر خلل کی وارننگ دے دی ہے۔ یورپ میں تیار ہونے والے 25 فیصد سٹیل کی فروخت امریکہ میں ہوتی ہے اس لیے یہ ٹیرف یورپی مارکیٹ پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ جنوبی کوریا‘ ویت نام‘ جاپان‘ جرمنی‘ تائیوان‘ نیدرلینڈز اور چین‘ سب مل کر امریکہ کی سٹیل کی درآمدات کا 30 فیصد فراہم کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اتنا بھاری ٹیرف عائد ہونے پر وہ بھی فکر مند ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو ٹیرف پالیسی اختیار کی گئی ہے اس کے نتیجے میں کینیڈا کی شراب‘ سپرٹس اور بیئر کی انڈسٹری متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اپلائنسز‘ فٹ ویئر‘ کاسمیٹکس‘ پلپ اینڈ پیپر‘ موٹر سائیکلز‘ ٹرک اور بسیں‘ ری کری ایشنل وہیکلز اور کشتیاں‘ سٹیل اور ایلومینیم سے بنی ہوئی اشیا‘ بیف یعنی بڑا گوشت‘ پورک‘ ڈیری اور مختلف نوعیت کے پھلوں اور سبزیوں کی کینیڈا سے امریکہ کو برآمد متاثر ہو سکتی ہے۔ میکسیکو سے امریکہ سٹیل‘ ایلومینیم‘ کاپر‘ کمپیوٹر چپس (Computer Chips) سیمی کنڈکٹرز (Semi Conductors) اور فارماسیوٹیکلز درآمد کرتا ہے اور امریکی ٹیرف کے نتیجے میں میکسیکو کی یہ برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ ٹیرف پالیسی کے نتیجے میں چین سے آنے والی الیکٹرانک اشیا‘ پارچہ جات‘ گھریلو اشیا اور میڈیکل سپلائیز کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

قبل ازیں 2 فروری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکہ کی پڑوسی ریاستوں کینیڈا اور میکسیکو سے درآمد ہونے والی اشیا پر 25 فیصد جبکہ چین سے درآمدات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا تھا۔ اس کے دو روز بعد ہی ٹرمپ نے یو ٹرن لیتے ہوئے میکسیکو اور کینیڈا پر ٹیرف ایک ماہ کے لیے مؤخر کر دیا تھا جبکہ چین سے بھی بات چیت کا عندیہ دیا گیا۔ اب سٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف عائد کیا گیا ہے تو اس سے کینیڈا اور چین سمیت درجنوں ممالک کے مالی طور پر متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے عالمی معیشت پر یقینی اثرات مرتب ہوں گے۔ کینیڈا، میکسیکو اور یورپی یونین بڑے زرعی برآمد کنندگان ہیں اور اگر امریکہ میں ٹیرف بڑھا کر تجارتی رکاوٹوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو ان مصنوعات کا رخ دنیا کے دوسرے خطوں کی طرف مڑ جائے گا‘ ان خطوں کی جانب جہاں تجارت کرنا کم مہنگا ہے۔ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں مزید مصنوعات کو برطانیہ کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ ٹیرف میں اضافہ افراط زر کا باعث بن سکتا ہیں، کیونکہ ٹیرف درآمدی سامان کو مہنگا بنا دیتے ہیں۔ اس کا اثر قیمتوں کے بڑھنے کی صورت میں پڑ سکتا ہے۔

دیگر اثرات میں عالمی معیشت کی ترقی کی رفتار سست ہونا بھی شامل ہے کہ امریکی درآمدات کم ہو گئیں اور ٹیرف کا ہدف بننے والی مصنوعات کی دوسری منڈیاں بھی تلاش نہ کی جا سکیں تو ظاہر ہے کہ ان کی پیداوار کم ہو جائے گی جس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھنے کے اندیشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ محصولات یا ٹیرف عائد کرنے سے عالمی تجارتی حجم میں کمی آ سکتی ہے، جس سے عالمی اقتصادی نمو سست ہو جائے گی اور ممکنہ طور پر قیمتیں بلند ہوں گی۔ زیادہ افراط زر کے ساتھ سود کی شرح میں اضافہ ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں قرض حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ زیادہ قیمتیں طلب میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہیں اور کاروبار اور صارفین کے اخراجات پر گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ دنیا کورونا کے لاک ڈاؤن کے منفی معاشی اثرات سے ابھی نکلی نہیں ہے۔ ایسے میں امریکہ کی ٹیرف وار عالمی برادری کو ایک اور اقتصادی بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔ اب یہ عالمی برادری پر ہے کہ خاموشی سے ان معاشی جنگ کو دیکھتی اور اس کے اثرات کا سامنا کرتی ہے یا کوئی لائحہ عمل بھی مرتب کرتی ہے۔ عالمی تجارت کو روکا نہیں جا سکتا کہ اس کے نتیجے میں بہت سے ممالک کی معیشتیں بیٹھ سکتی ہیں۔ ٹرمپ امریکہ کے بارے میں تو یقیناً سوچ رہے ہیں لیکن باقی دنیا کے ساتھ کیا ہو گا؟ اس پر ان کی نظر نہیں ہے اور غالباً انہیں نظر ڈالنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ایسے میں کون سی پالیسیاں اختیار کی جائیں تو بڑے بحران سے بچا جا سکتا ہے؟ یہ آج کے معیشت دانوں‘ حکمرانوں اور سیاست دانوں کا ایک بڑا امتحان ہے۔