کرکٹ میلہ
طویل انتظار کے بعد بالآخر پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ کا میلہ سج گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان اپنا پہلا میچ نیوزی لینڈ سے خراب پرفارمنس کی وجہ سے ہار چکا ہے‘ پھر بھی آگے دلچسپ کرکٹ میچز دیکھنے کو ملنے والے ہیں۔ ہمارے کرکٹ کے میدان 3 مارچ 2009ء کو لاہور میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے ویران پڑے تھے۔ کوئی غیر ملکی سری لنکن ٹیم والے سانحے کے بعد یہاں آ کر کھیلنے کو تیار نظر نہیں آتی تھی۔ پھر ہم نے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دے کر دہشت گردی پر قابو پایا اور آج اس قابل ہوئے ہیں کہ ملک میں بڑے ایونٹ منعقد کرا سکیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کون ہمارے کرکٹ کے میدان ویران دیکھنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے۔ بھارت کی جانب سے رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود پاکستان میں چیمپیئن کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد پاکستان کرکٹ بورڈ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر جتنی بھی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ صرف ٹورنامنٹ کا انعقاد ہی یقینی نہیں بنایا گیا بلکہ اس اَمر کا اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ بھارت کی طرح آئندہ پاکستان بھی بھارت میں ہونے والے کرکٹ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے بھارت نہیں جائے گا بلکہ اپنے میچ کسی نیوٹرل ایونیو پر کھیلے گا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کا یہ رد عمل پاکستان کی اخلاقی اور اصولی فتح اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے منہ پر ایک زوردار طمانچے کے مترادف ہے لیکن چلیں ہم طمانچہ نہیں مارتے کہ یہ کھیل کا معاملہ ہے اور کھیل خیر سگالی سکھاتے ہیں‘ دشمنی اور مخاصمت کا پرچار نہیں کرتے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ریکارڈ وقت میں سٹیڈیم کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ محسن نقوی کے پاس کون سے جن ہیں جنہوں نے اتنا بڑا کام چند دنوں میں کر دیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان چھوٹے بڑے ہر طرح کے ٹورنامنٹ منعقد کرانے کی اہلیت کا حامل ہے‘ اس لیے یہاں مزید کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کے ٹورنامنٹس کے انعقاد کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جانا۔
اس وقت سب کی نظریں اس بات پر ہیں کہ کون سی ٹیم کسے پچھاڑتی ہے اور سیمی فائلز تک کون سی چار ٹیمیں پہنچیں گی۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ کرکٹ بائی چانس لیکن ماضی میں کون سی ٹیم کس پر حاوی رہی اس کا جائزہ لے کر کچھ نہ کچھ اندازہ تو لگایا جا ہی سکتا ہے کہ اب کیا ہو سکتا ہے۔ اس لیے آئیے چیمپئنز ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی آٹھ کرکٹ ٹیموں کے ایک دوسرے کے ساتھ میچوں کی تفصیلات جانتے ہیں کہ کس نے آپس میں کتنے میچ کھیلے گئے اور کتنوں میں کس کی جیت اور کس کی ہار ہوئی۔ اس سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملے گی کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے کرکٹ سٹیڈیمز میں کیا ہونے والا ہے اور کس پر کس کا پلڑا بھاری دکھائی دینے والا ہے۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین اب تک 118 ون ڈے میچز کھلے گئے ہیں۔ ان میں سے 61 میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی جبکہ 53 میچ ہارے۔ 3 میچوں کا فیصلہ نہیں ہو سکا تھا جبکہ ایک میچ ڈرا ہو گیا تھا۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں اب تک کل 41 ون ڈے میچز کھیلے گئے جن میں سے 32 بھارت نے جیتے جبکہ 8 میچز میں بنگلہ دیش فاتح ٹھہرا۔ ایک میچ کا فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔ افغانستان اور جنوبی افریقہ کے مابین اب تک 5 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے گئے ہیں جن میں سے جنوبی افریقہ نے 3 جبکہ افغانستان نے 2 میچ جیتے ہیں۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے مابین اب تک 160 ایک روزہ ٹاکرے ہو چکے ہیں جن میں سے 90 آسٹریلیا نے جیتے اور 65 میں انگلینڈ نے کامیابی حاصل کی۔ 3 میچز بے نتیجہ رہے جبکہ 2 میچ ٹائی ہو گئے تھے۔ پاکستان اور بھارت اب تک 135 میچوں میں ایک دوسرے کے مد مقابل آ چکے ہیں۔ ان میں سے 73 میچ پاکستان نے جیتے جبکہ 57 بھارت نے۔ 5 میچ بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔
بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ اب تک 45 میچ کھیل چکے ہیں۔ ان میں سے 33 نیوزی لینڈ نے جیتے جبکہ 11 میں بنگلہ دیش کو کامیابی ملی۔ ایک میچ بے نتیجہ رہا تھا۔ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ نے 110 میچ کھیلے۔ جنوبی افریقہ نے 55 جبکہ آسٹریلیا نے51 میچ جیتے۔ ایک میچ بے نتیجہ رہا جبکہ 3 میچ ٹائی ہو گئے تھے۔ افغانستان اور انگلینڈ میں اب تک 3 میچ ہی کھیلے گئے ہیں جن میں سے انگلینڈ نے 2 اور افغانستان نے ایک میچ جیتا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نے آپس میں 39 میچ کھیلے جن میں سے 34 پاکستان کے حصے میں آئے جبکہ 5 بنگلہ دیش نے جیتے۔ افغانستان اور آسٹریلیا کے درمیان اب تک صرف چار میچز ہوئے جو سب کے سب آسٹریلیا نے جیتے۔ انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے مابین 70 میچ کھیلے گئے۔ ان میں سے 34 میچوں میں جنوبی افریقہ نے کامیابی سمیٹی جبکہ 30 میچ انگلینڈ کے حصے میں آئے۔ انگلینڈ اور بھارت نے اب تک 118 میچ کھیلے جن میں سے 60 بھارت نے جیتے اور 50 انگلینڈ نے جیتے۔ 7 میچ بے نتیجہ رہے اور ایک میچ ٹائی ہو گیا تھا۔
میری خواہش اور دعا تو یہ ہے کہ ہماری ٹیم اچھا کھیلے اور پاکستان ایک بار پھر چیمپئنز ٹرافی کا ونر بن جائے لیکن پچھلے کچھ عرصے میں ٹیم کی جو پرفارمنس رہی ہے اس کو سامنے رکھیں تو عجیب سے وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے ساتھ ہونے والا ٹورنامنٹ کا پہلا میچ تو آپ نے دیکھ ہی لیا۔ سچ بتائیے‘ یہ میچ ہارنے والا تھا جو ہم نے ہار دیا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ ہماری ٹیم مخالف ٹیم کے دباؤ میں آ چکی ہے۔ کھیلوں میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے لیکن پورے جوش سے کھیل کر ہارنے اور بے دلی کے ساتھ کھیل کر ہارنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بہرحال امید کی جاتی ہے کہ ہماری ٹیم ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھے گی۔ ہماری ٹیم نے کتنا سیکھا؟ اس کا اندازہ اتوار کے روز بھارت کے ہونے والے میچ میں ہو جائے گا