خالد ارشاد صوفی
کراچی کے مصطفےٰ کا قتل کیس عدالت میں ہے، اس لیے اس پر براہ راست کچھ کہنا مناسب نہیں، لیکن ہم اس سارے معاملے کا ایک الگ پہلو سے جائزہ لے سکتے ہیں، اور وہ پہلو ہے اس کیس میں منشیات کا استعمال۔ اداکار ساجد حسن کا بیٹا ساحر حسن بھی اس کیس میں منشیات کی سپلائی کے حوالے سے زیرِ تفتیش ہے۔
پولیس کے مطابق اس نے دو سالوں میں 24 کروڑ روپے مالیت کی منشیات فروخت کی ہے۔اس کیس میں نشے کی ایک قسم ویڈ کا ذکر آتا ہے۔ آئیے پہلے جانتے ہیں کہ یہ ویڈ کیا ہے؟ چرس ایک پھول دار پودے کا نام ہے۔ اسے انگریزی میں Cannabis indica یا میری جوانہ (Marijuana) یا Hemp بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نشہ ویڈ (weed)، پوٹ (pot) اور ڈوپ(dope) کے نام بھی جانا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں چرس کو ہی ویڈ کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں منشیات کا استعمال کس تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کا اندازہ اقوام متحدہ کی ان رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 13 سال سے 25 سال کی عمر تک کے لاکھوں افراد نشے میں مبتلا ہیں۔ نومبر 2023ء میں منشیات سے متعلق تشویش ناک حقائق پر مبنی رپورٹ وزارت داخلہ کو جمع کروائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد کے سرکاری سکولوں میں منشیات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ اسلام آباد کے 1300 سے زائد پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں میں منشیات کے استعمال کی تصدیق ہو چکی ہے۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ 16 سال کے لڑکے اور لڑکیاں بھی منشیات استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں 50 فیصد نوجوان لڑکیاں شامل ہیں۔ امریکی جریرے فارن پالیسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات کے استعمال کی وجہ سے یومیہ 700 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں تقریباً 27 کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں اور یہ منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے، جہاں تقریباً 75 فیصد لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ افغانستان میں کم و بیش 4 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں جو ملکی آبادی کا 10 فیصد حصہ بنتا ہے۔
یو این او ڈی سی (United Nations Office on Drugs and Crime) کی جانب سے 6 نومبر 2024ء کو جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق اس سال افغانستان میں 12800 ہیکٹر پر افیون پیدا کی گئی۔ اس کی قیمت تقریباً 260 ملین ڈالر تھی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 130 فیصد زیادہ مگر 2022ء میں لگائی گئی پابندی سے پہلے کے عرصہ سے 80 فیصد کم ہے۔ یو این او ڈی سی کے تخمینے کے مطابق 2018ء میں پوست کی کاشت کاری سے ملک کی 11 فیصد معیشت منسلک تھی۔
افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ افیون پیدا اور ترسیل کرنے والا ملک ہے۔ عالمی منڈی میں اس کا حصہ تقریباً 80 فیصد ہے یعنی 80 فیصد منشیات صرف اکیلے افغانستان میں تیار ہوتی ہیں اور باقی 20 فیصد باقی ساری دنیا میں۔ افغانستان منشیات کی غیر قانونی کاشت اور پیداوار میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔
پاکستان کی افغانستان سے ملحق طویل سرحد منشیات کی سمگلنگ کا سب سے بڑا ذریعہ اور راستہ ہے۔ افغانستان سالانہ 60 سے 80 فیصد افیون امریکہ اور یورپ کی مارکیٹ میں سمگل کرتا ہے۔
2011ء میں افغانستان میں 1300 ٹن حشیش (کینبس) غیر قانونی طور پر پیدا ہوئی جو ہیروئن اور دیگر منشیات کی طرح ہی پاکستان میں داخل ہوئی، کچھ یہاں استعمال ہوئی اور باقی دنیا کے دوسرے خطوں کو سمگل کر دی گئی۔
یہ ایک اہم سوال ہے کہ ہمارے ملک میں منشیات کا استعمال کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ اس کی فوری جو وجہ ذہن میں آتی ہے وہ یہاں ٹوٹتا ہوا خاندانی نظام ہے جس کی وجہ سے والدین میں طلاقوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ ٹوٹے ہوئے خاندان کے بچے مختلف نوعیت کے نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر حالات کو ٹھیک نہ کر پانے کے نتیجے میں فرسٹریشن کا شکار ہو کر منشیات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ دوسری وجہ بڑھتا ہوا سماجی اور معاشی دباؤ ہے۔
ہمارے ملک کے اقتصادی معاملات کیا ہیں یہ سب کو معلوم ہے، اور یہ صورت حال ان افراد پر بھی اثر انداز ہوتی ہے جو لڑکپن سے جوانی کی سرحد میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک حساس عمر ہوتی ہے جس میں والدین کو اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دینے اور ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن معاشی تلازمات نے والدین کو اپنے کاروباروں اور نوکریوں میں اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ ان کے پاس غالباً اپنے بچوں کے لیے بھی وقت نہیں بچا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جو بچوں کو منشیات کی گود میں سکون تلاش کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں منشیات کے استعمال بڑھنے کی دوسری بڑی وجہ اس کا آسانی سے دستیاب ہونا ہے۔ میں نے کالم کے آغاز میں بھی سوال اٹھایا تھا کہ یہ جو ٹنوں کے حساب سے منشیات ہمارے ملک میں استعمال کی جاتی ہیں یہ کہاں سے آتی ہیں؟ کون ان کی ترسیل اور تقسیم کرتا ہے اور پھر یہ گلی محلوں حتیٰ کہ ہمارے تعلیمی اداروں تک بھی کیسے پہنچ جاتی ہیں؟ اس سوالات کے جوابات میں ہی اس گمبھیر مسئلے کا حل پوشیدہ ہے۔
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ منشیات کی ترسیل اور تقسیم کے سدِ باب کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی اور اقدامات کرے۔ بصورت دیگر ملک کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ ہم ایس یوتھ پیدا ہی نہیں کر سکیں گے جو مستقبل میں ملک کی باگ دوڑسنبھال سکے۔ اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو پھر کراچی کے مصطفےٰ کے قتل جیسی داستانیں سامنے آتی رہیں گی، تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی رپورٹیں پیش کی جاتی رہیں گی۔
اگر ہم نے بروقت ٹھوس اقدامات نہ کیے تو کیا تاریخ ہم سب کو وطنِ عزیز کے مستقبل کو تاریک کرنے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گی؟