پی ٹی آئی کی جے یو آئی ف کیساتھ اتحاد کی کوششیں، ماضی کی بدزبانی بڑی رکاوٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) موجودہ سیاسی نظام کو چیلنج کرنے کیلئے ایک اپوزیشن اتحاد کے قیام کیلئے سرگرم نظر آ رہی ہے لیکن جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کیخلاف پارٹی کی جانب سے ماضی میں کی گئی بد زبانی ہی اس میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

جے یو آئی ف کے ایک باخبر ذریعے کا کہنا ہے کہ سیاسی اشتراک کے قیام کی امید میں پی ٹی آئی کے جن رہنمائوں نے جے یو آئی ف والوں سے رابطہ کیا ہے انہیں ماضی میں پی ٹی آئی والوں کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کیخلاف جاری کیے گئے ماضی کے ریمارکس کے حوالے سے تحفظات بتا دیے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، اگرچہ جے یو آئی ف والے عوامی سطح پر معافی کا مطالبہ نہیں کر رہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی والے پارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے کچھ ٹھوس اقدامات کریں، کیونکہ پارٹی والے ماضی میں مولانا فضل الرحمان کیخلاف کیے گئے زبانی حملوں سے سخت ناراض ہیں۔

بات چیت جاری ہے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے اب تک جے یو آئی ف والوں کے تحفظات کا جواب نہیں دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی ف نے اپوزیشن اتحاد کی قیادت پر اصرار نہیں کیا بلکہ اپنے تحفظات سے پی ٹی آئی کو آگاہ کیا ہے۔ ان سے تحفظات کا جواب دینے کیلئے کہا گیا تھا تاہم کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

جے یو آئی ف کے علاوہ، پی ٹی آئی کو دیگر مخالف دھڑوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ناقدین کے مطابق، پی ٹی آئی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود اپنے ممکنہ اتحادیوں کیلئے یکطرفہ طور پر شرائط کی ڈکٹیشن نہیں دے سکتی۔

مشاورت کی کمی سے خدشات پیدا ہوئے ہیں جس میں اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کے سیاسی انداز سے محتاط نظر آتے ہیں۔ جس وقت تحریک انصاف نے رمضان کے بعد ملک گیر احتجاج کے منصوبوں کا اعلان کر رکھا ہے وہیں اس معاملے پر اس نے جے یو آئی ف اور شاہد خاقان عباسی کی عوام پاکستان جیسی جماعتوں سے مشاورت نہیں کی۔

اس صورتحال نے پی ٹی آئی کے حوالے سے ان خدشات اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے کہ آیا پی ٹی آئی مل کر کام کرے گی یا نہیں۔ اتوار کو ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران شاہد خاقان عباسی نے اس بات پر اصرار کیا کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کو پاکستان کے سیاسی استحکام کیلئے اپنی رائے کی اصلاح کرنا چاہئے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کی اِن امیدوں کو مسترد کر دیا کہ امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ عمران خان کی رہائی کیلئے مداخلت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا امکان نہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی کے پاس بھرپور عوامی حمایت ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پارٹی نے ماضی کا طرز عمل جاری رکھا تو اسے وسیع پیمانے پر سیاسی حمایت کے حصول میں جدوجہد کرنا پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ 72 سالہ عمران خان کو اپنی ماضی کی غلطیوں پر غور اور پارٹی کی اصلاح پر دھیان دینا چاہئے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے معاملے میں جے یو آئی ف ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

گزشتہ سال مولانا فضل الرحمان نے اتحاد کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی جماعت آزادانہ انداز سے حکومت مخالف سرگرمیاں جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی طرح کے اتحاد کے حوالے سے پارٹی کا سابقہ تجربہ اچھا نہیں رہا لہٰذا پارٹی اپنی جدوجہد علیحدہ رکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔

تاہم، پی ٹی آئی کے ساتھ باضابطہ اتحاد کی بجائے جے یو آئی ف نے معاملات کی بنیاد (ایشو ٹوُ ایشو) پر رابطے کے راستے کھلے رکھے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم پر بات چیت کے دوران مولانا فضل الرحمان نے مکمل سیاسی اشتراک کی بجائے کشیدگی کم کرنے ترجیح کا اعادہ کیا تھا۔

لیکن دوسری طرف، پی ٹی آئی اپوزیشن اتحاد بنانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم جے یو آئی ف اور دیگر سیاسی گروپوں کی جانب سے شکوک و شبہات اور تحفظات ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا پی ٹی آئی یہ تحفظات دور کرتی ہے اور اپوزیشن صفوں میں اتحاد کو فروغ دیتی ہے یا نہیں۔