پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
بایوپسی کے بغیر جلد کا سرطان شناخت کرنے والا دستی آلہ
نیوجرسی: ہاتھوں میں سماجانے والے ایک نئے آلے کی بدولت اب کسی بایوپسی کے بغیر جلد کے سرطان کی درست شناخت کی جاسکتی ہے۔
دنیا بھر میں اسکن کینسر کی شناخت کے لیے اس کا ایک باریک ٹکڑا نکال کر کئ روز تک تجربہ گاہ میں اس کا جائزہ لیا جاتا ہے جسے بایوپسی کہا جاتا ہے۔ لیکن اسٹیون انسٹی ٹیوٹ کا بنایا ہوا دستی آلہ ملی میٹر طولِ موج (ویولینتھ) سے کینسر کو دیکھ کر اس کے سرطانی اور غیرسرطانی ہونے کی نشاندہی کرسکتا ہے۔
سرطانی تشخیص کے لئے بایوپسی کا عمل وقت طلب اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس میں مشکوک مسے یا چھالے کا ایک چھوٹا ٹکڑا کاٹ کر تجربہ گاہ میں بھیجا جاتا ہے جبکہ اس کا زخم بھرنے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ اب یہ حال ہے کہ کئی مرتبہ بلاوجہ بار بار بایوپسی کرنا پڑتی ہے یوں جِلدی سرطان کی شناخت ایک معمہ بن چکی ہے۔
اب اسٹیونز انسٹی ٹیوٹ نے ایک نیا آلہ بنایا ہے جو کم خرچ ہونے کے ساتھ ساتھ فوری طورپر نتائج دکھاتا ہے اور تجربہ گاہی معیار کے عین مطابق بھی ہے۔ یہ ملی میٹر سطح پر بایوپسی کی تصویر کشی کرتا ہے اور یہ ٹیکنالوجی ایئرپورٹ پر اسکیننگ میں عام استعمال ہوتی ہے۔
آلہ جلد کی اسکیننگ کرتا ہے اوروہاں سے منعکس شدہ شعاعوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس کا الگورتھم کئی اینٹینا سے بہترین تصویر بناتا ہے۔ یہ بلند وضاحت اور کسی رخنے کے بغیر چھوٹے سے داغ اور باریک مسے کو بھی دیکھ لیتا ہے۔
سب سے پہلے اس کا ایک بڑا ٹیبل ورژن بنایا گیا جس سے 71 افراد کی جلد اسکین کی گئی ۔ چند ہی سیکنڈ میں ہر مریض کا جائزہ مکمل ہوگیا اور ماہرین نے 97 فیصد درستگی اوراس کی سرطانی قسم معلوم کرنے میں 98 فیصد درستگی سے اس کا جائزہ لیا۔ یہ شرح جدید ترین ہسپتال کی تجربہ گاہ سے بھی بلند تھی۔
اگرچہ سرطانی تصویر کشی کے کئی آلات دستیاب ہیں لیکن وہ بہت مہنگے اور بڑے ہیں اور غریب ممالک کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اس کے مقابلے میں نیا تیزرفتار دستی آلہ بہت کم خرچ اور مؤثر بھی ہے۔
ملی میٹر ویولینتھ کی وجہ سے روشنی جلد میں دو ملی میٹر تک سرایت کرجاتی ہے اور ابھار کا تھری ڈی نقشہ سا بناتی ہیں۔ پھر تصویر کو ایک سافٹ ویئر تک بھیجا جاتا ہے جہاں الگورتھم اس کے کینسر ہونے یا نہ ہونے کی پیشگوئی کرتا ہے۔ اس کے بعد بایوپسی سے مزید تصدیق کی جاسکتی ہے۔
اگلے مرحلے میں اسے مزید چھوٹا کیا جائے گا اور یوں صرف دو برس کے اندر اندر اس کا ایک ماڈل 100 ڈالر میں عام دستیاب ہوگا۔