پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
بیمار گدھے کی طرح
امولوئی ڈوسیس (Amyloidosis) دنیا میں انتہائی کم لیکن خوف ناک بیماری ہے‘ اس میں جسم میں پروٹین جمع ہو جاتی ہے اور یہ جسم کے مختلف اعضاء کو تباہ کرتی چلی جاتی ہے‘علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا‘ امریکامیں ٹرائل بیسز پر چند انجکشن بنے ہیں‘ یہ ریڑھ کی ہڈی کے سرے پر بون میرو میں لگوانے پڑتے ہیں اور یہ ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے‘ جنرل پرویزمشرف اس بیماری میں مبتلا ہیں اور یہ تکلیف اور اذیت سے گزر رہے ہیں۔
یہ اچھے انسان تھے یا برے یہ فیصلہ اب اللہ تعالیٰ اور وقت کرے گا لیکن جہاں تک ان کی بیماری کا تعلق ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ سے رحم کی بھیک مانگنی چاہیے‘اللہ دشمن کو بھی بیماری سے بچائے‘ جنرل صاحب دبئی میں زیر علاج ہیں‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے25 جون کو اپنی اہلیہ اور ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ دبئی میںجنرل پرویز مشرف کی عیادت کی اور انھیں پاکستان آنے کی دعوت دی لیکن فیملی نے معذرت کر لی‘ ان کا کہنا تھا ’’پاکستان میں علاج کی سہولت موجود نہیں لہٰذاانھیں اسلام آباد لے جانا ان کی زندگی کے لیے خطرناک ہو گا‘‘ جنرل باجوہ کی میڈیکل ٹیم نے فیملی سے اتفاق کیا اور یوں جنرل پرویز مشرف کی واپسی ملتوی ہو گئی۔
یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے‘ پاکستان میں بہترین علاج سی ایم ایچ میں دستیاب ہے‘ میاں نواز شریف جیل میں بیمار ہوئے تھے تو فوجی ڈاکٹرز نے ان کا معائنہ کیا تھا‘ میرے دوست اور ہم سب کے چوہدری انور عزیز کے صاحب زادے دانیال عزیز کا16جون کو ایکسیڈنٹ ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی جان بچا لی لیکن یہ شدید زخمی ہیں‘ یہ بھی اس وقت سی ایم ایچ راولپنڈی میں زیر علاج ہیں۔
آرمی کے اپنے میڈیکل کالجز بھی ہیں اور میڈیکل کور کی تاریخ بھی ڈیڑھ سو سال پر محیط ہے لیکن ہم اس کے باوجود سابق آرمی چیف کا علاج پاکستان میں نہیں کر سکتے‘ میاں نواز شریف بھی تین بار وزیراعظم رہنے کے باوجود لندن میں علاج کرا رہے ہیں‘ان کی ہارٹ سرجری بھی ہارلے اسٹریٹ کلینک لندن میں ہوئی اور یہ بھی اس وقت وزیراعظم تھے‘آصف علی زرداری بھی صدارت کے دوران تین بار دبئی اور لندن میں زیرعلاج رہے اور ملالہ یوسف زئی کو 9 اکتوبر 2012 کو مینگورہ میں ٹی ٹی پی نے گولی کا نشانہ بنایا‘ یہ بھی برمنگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال میں زیرعلاج رہیں‘ہماری پارلیمنٹ میں بیرون ملک علاج کا باقاعدہ فنڈ موجود ہے اور اس فنڈ سے ارکان پارلیمنٹ کو علاج کے لیے دوسرے ملکوں میں بھی بھجوایا جاتا ہے۔
بیوروکریٹس بھی علاج کے لیے باہر جاتے ہیں اور بزنس مین تو مینی کیور اور پیڈی کیور بھی باہر سے کراتے ہیں‘ کیوں؟ آپ نے کبھی سوچا؟ سچ تو یہ ہے پاکستان میں معیاری علاج دستیاب نہیں‘ علاج ہو جائے تو ہم پوسٹ آپریشن کی کیئر میں دنیا میں بہت پیچھے ہیں‘ یورپ میں آپریشن سے پہلے‘ آپریشن کے فوراً بعد‘ آپریشن کے بعد پہلے تین دن اور اس کے بعد بحالی تک کاعملاً مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے اور یہ اپنے کام کے لیے ٹرینڈ ہوتے ہیں جب کہ یہاں مریض کو مرنے تک ایک ہی قسم کے لوگ نظر آتے ہیں اور ہماری ادویات بھی یورپی اسٹینڈرڈ سے بہت پست ہیں۔
ہماری کسی فارما سوٹیکل کمپنی کی کوئی دوا مغربی دنیامیں نہیں بکتی‘ رہی سہی کسر میڈیکل اسٹور پوری کردیتے ہیں‘ یہ ادویات کو دھوپ اور گرمی میں رکھ کر انھیں دوا نہیں رہنے دیتے لہٰذا ملک کے زیادہ تر مقتدر لوگ ادویات بھی دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں اور آپریشن اور طبی مشورے بھی مغربی ڈاکٹرز سے کرتے ہیں‘جسٹس رانا بھگوان داس میرے مہربان تھے‘ یہ اپنے لیے ڈسپرین باہر سے منگواتے تھے۔
میں انھیں کہتا تھا پاکستان میں ڈسپرین کے ہزاروں برینڈز ہیں‘ آپ یہاں سے کیوں نہیں خریدتے؟ ان کا جواب ہوتا تھا ’’میں جلدی نہیں مرنا چاہتا‘‘ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بیٹے کے پاس امریکا بھی شفٹ ہونا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا ’’پاکستان میں اولڈ ایج بیماریوں کا علاج موجود نہیں اور آپ اگر بیمار ہو جائیں تو یہ ظالم آپ کو بے ہوش کر کے چیر پھاڑ دیتے ہیں‘‘ ملک کے زیادہ تر سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے بھی صرف میڈیکل کیئر کے لیے مغربی ملکوں کی شہریت لے رکھی ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے ہم آنکھ نہیں چرا سکتے۔
کیا ہم اپنے طبی شعبے کو امپروو نہیں کر سکتے؟ ہم سو فیصد کر سکتے ہیں‘ دبئی سے امریکا تک دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں آئیں انسانوں نے کیں اور یہ بھی ہماری طرح ’’سوشل اینیمل‘‘ تھے چناں چہ ہم بھی کر سکتے ہیں مگر ہمیں یہ کرنے کے لیے ان کی طرح سوچنا اور کام کرنا ہو گا‘ اسرائیل کی آبادی صرف 92 لاکھ ہے‘ ہمارا لاہور شہر پورے اسرائیل سے بڑا ہے لیکن یہ ملک سائنس‘ ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پوری دنیا کو لیڈ کر رہا ہے‘ گوگل‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ یوٹیوب‘ ایپل کمپنی اور ایمازون اپنے تمام نئے فیچرز اسرائیل سے بنواتے ہیں اور اسرائیل ہمارے ساتھ بنا تھا۔
امریکا کی پوری تاریخ سوا سو سال سے زیادہ نہیں‘ یورپ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد ملبے کا ڈھیر تھا‘ جاپان 1960 تک ایٹمی راکھ کا تنور تھا اور چین 1980 تک عوام کے لیے خوراک پوری نہیں کر پارہا تھا جب کہ سنگا پور‘ ملائیشیا‘ ترکی اور بھارت ہمارے سامنے کرالنگ کرتے کرتے اپنے پائوں پر کھڑے ہوئے ‘ ہم اس فہرست میں کیوں شامل نہیں ہیں؟ آپ نے کبھی سوچا! ہماری پستی کی ہزاروں وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن تین انتہائی اہم ہیں اور ہم جب تک یہ وجوہات دور نہیں کرتے ہم اس وقت تک اسی طرح زمین پر رینگتے رہیں گے اور ان میں سے پہلی وجہ ہم 75 سال بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکے طاقت کا اصل سرچشمہ کون ہے؟
ملک فوج نے چلانا ہے یا سیاست دانوں نے اورملک کا آئینی اور قانونی ڈھانچہ کیا ہونا چاہیے؟ میری ریاست سے درخواست ہے آپ ایک ہی بار یہ فیصلہ کر لیں‘ ریاستی طاقت اگر فوج کے پاس ہونی چاہیے تو پھر تمام اختیارات فوج کو دے دیں اور 25 سال تک ان سے کسی قسم کا حساب نہ مانگیں اور اگرملک سیاست دانوں نے چلانا ہے تو پھر فیئر اینڈ فری الیکشن کا ایک مضبوط سسٹم بنا دیں‘ الیکشن وقت پر ہوں‘ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں‘ حکومت خواہ چھ ماہ بعد بدل جائے اسے بدلنے دیں لیکن الیکشن پانچ سال بعد ہی ہوں‘ اس سے ملک میں سیاسی استحکام آ جائے گا اور گاڑی چلنے لگے گی۔
ہم اینٹی بزنس اور اینٹی پراگریس بھی ہیں‘ ہم سرمایہ اور روزگار پیدا کرنے والے بزنس مینوں کو مارنا شروع کر دیتے ہیں‘ ہم آج تک سڑکوں‘ گلیوں اور نالیوں کا اسٹینڈرڈ بھی طے نہیں کر سکے‘ ہماری سڑکیں اور گلیاں دو ماہ میں کیوں ٹوٹ جاتی ہیں اور یورپ کی دو دو سو سال تک کیوں محفوظ رہتی ہیں؟ کیوں کہ یورپ میں اسٹینڈرڈ ہے‘ ٹھیکے دار وہاں اس اسٹینڈرڈ سے نیچے نہیں آ سکتا جب کہ ہم آج تک یہ اسٹینڈرڈ ہی طے نہیں کر سکے۔
لہٰذا پورے ملک کو بیٹھ کر ایک ہی بار بلیو بک تیار کر لینی چاہیے‘ اس میں اینٹ ‘سریے اور سیمنٹ سے لے کر وفاقی سیکریٹری کی ٹرانسفر اور تقرر تک ہر چیز لکھی ہو اور یہ 25 سال کے لیے لاک کر دی جائے‘ اسے دیوتا بھی نہ بدل سکیں‘ پاکستان میں فوج کیوں کام یاب ہے؟ کیوں کہ یہ بک کے مطابق چلتی ہے‘ یہ کسی کو کسی قسم کا استثنیٰ نہیں دیتی‘ ہم یہ سسٹم سول میں کاپی کیوں نہیں کرتے؟ اور تین ہم نفرت سے بھرے ہوئے منقسم لوگ ہیں‘ ہم قابل ترین شخص کو بھی سیاسی‘ مذہبی‘ نسلی اور طبقاتی پھانسی گھاٹ پر لٹکا دیتے ہیں‘ ہم نے بزنس مین اور بیوروکریٹس تک آپس میں تقسیم کر رکھے ہیں‘ یہ میاں صاحب کا بندہ ہے اور یہ زرداری صاحب کا اور یہ فوج کے ساتھ ہے اور یہ سول کے ساتھ‘ ہم نماز تک اپنی مرضی کے امام کے پیچھے پڑھنا چاہتے ہیں۔
ہمیں یہ سلسلہ بھی بند کرنا ہو گا‘ اگر اسحاق ڈار معیشت اچھی چلا رہے تھے تو یہ 2018کے بعد وزیرخزانہ کیوں نہیں رہ سکتے تھے اور اگر شوکت ترین ملک کو مضبوط معاشی پٹڑی پر لے آئے تھے تو انھیں ہٹانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ انھیں کام جاری رکھنے دیتے‘ آپ نے کیوں چلتی ہوئی ٹرین کا ڈرائیور بدل کر ملک کا بیڑا غرق کر دیا‘ ملک چلانے کے لیے صرف 200 لوگ چاہیے ہوتے ہیں‘ ہمارے پاس کہیں زیادہ قابل لوگ ہیں لیکن ہماری ’’تیرے میرے‘‘ کی گردان انھیں اکٹھا نہیں ہونے دے رہی اور یوں ملک کا بیڑا غرق ہو گیا‘ آپ پارٹی‘ فرقہ‘ مذہب‘ قومیت اور نسل سے بالاتر ہو کر دوسو شان دار لوگ اکٹھے کریں‘ انھیں مختلف محکموں کی سربراہی سونپ دیں۔
یہ ایکٹو منسٹر ہوں‘ یہ صرف کام کریں جب کہ سیاسی وزیر پریس کانفرنس‘ تقریریں اور تقریبات میں شرکت کریں یوں سیاست بھی چلتی رہے گی اور کام بھی ہوتا رہے گا اور آخری چیز آپ انصاف کو سب کے لیے برابر اور مہنگا کر دیں‘ قانون اگر مشکل اور انصاف اگر مہنگا ہو گا تو لوگ لڑنے بھڑنے سے باز رہیں گے‘ یہ اپنے مسئلے آپس میں بیٹھ کر حل کر لیا کریں گے یوں نچلی سطح کے ایشوز نچلی سطح پر ہی ختم ہو جائیں گے اور عدالتوں میں صرف جرائم کے مقدمے پہنچیں گے۔
آپ یقین کریں دنیا میں ترقی کی سائنس انتہائی آسان ہے بس اس کے لیے ارادہ اور عمل چاہیے اور ہم ان دونوں میں مار کھا رہے ہیں چناں چہ بیمار گدھے کی طرح دنیا کی چوکھٹ پر لیٹے ہیں اور گزرنے والے