معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
بارشیں‘ تباہی‘ گورنر راج اور بھنگڑے
اللہ تعالیٰ عمران خان کی زندگی دراز فرمائے؛ تاہم اب یہ بات طے ہے کہ وہ جب تک پاکستان کی سیاست میں عملی طور پر متحرک ہیں یا وہ پاکستان کے وزیراعظم ہوا کریں گے یا سڑکوں پر اپنے بے مثال چاہنے والوں کے ساتھ حکمرانوں کے خلاف برسرپیکار رہا کریں گے۔ جب وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر خود متمکن ہوں گے تو من مرضی کیا کریں گے اور جب خود اقتدار میں نہیں ہوں گے تو اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے حکمران کو خوار و خستہ کیا کریں گے۔ یا وہ خود حکومت کریں گے یا پھر کسی کو بھی چین سے حکومت نہیں کرنے دیا کریں گے۔ خان صاحب کی طبیعت ہی ایسی ہے اور خان صاحب کے تبدیلی کے نعرے سے مراد ہر قسم کی وہ تبدیلی ہے جو وہ دوسروں کے حوالے سے دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ خدانخواستہ اس تبدیلی سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ خان صاحب خود میں کوئی تبدیلی کریں۔
میں مئی کے مہینے میں کئی سالوں سے بڑھائے ہوئے سر کے بالوں کی ”پونی‘‘ مکہ مکرمہ کی مقدس خاک پر اللہ اور اس کے رسول کے مہمانوں کے جوتوں کے حوالے کرنے کے بعد ہلکا ہو کر واپس ملتان پہنچا تو ایک نہایت ہی محترم دوست ملتان میں گزشتہ دو دن سے میرے منتظر تھے۔ صبح گھر پہنچتے ہی نہا کر سفر کے کپڑے تبدیل کیے اور ساری رات کے سفر اور اس سے پہلے مدینۃ النبی میں مسلسل جگراتوں کے باوجود فوری طور پر اپنے اس دوست سے ملنے کیلئے روانہ ہوگیا۔ مہمان کی مہمانداری اور دلداری سے بڑھ کر بھلا کس چیز میں راحت ہو سکتی ہے؟
دوسرے شہروں‘ بلکہ دوسرے ممالک میں رہنے والے دوستوں سے بھی میرا مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ بھلے ملاقات سالوں تک نہ ہو مگر رابطہ کسی طور ٹوٹنے نہیں پایا۔ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کے دوستوں سے بھی فون کے طفیل‘ زمینی فاصلوں کے باوجود دوری کم کرتا رہتا ہوں۔ اپنے اس دوست سے نہ صرف باقاعدہ رابطہ رہتا ہے بلکہ بعض اوقات تو گھنٹوں پر محیط فون کال ہوتی ہے۔ جب نام لکھنا ہی مقصود نہیں تو پھر زیادہ نشانیاں کیا دینا؟ ادھر اُدھر کی باتیں‘ سفر کی روداد اور بالآخر وہی ہم اور ہمارا پسندیدہ موضوع یعنی سیاست اور حالاتِ حاضرہ۔ میں نے کہا: آپ تو ماشا اللہ گزشتہ کچھ دنوں میں شاید دو مرتبہ عمران خان سے ذاتی طور پر مل کر آئے ہیں‘ کوئی حال سنائیں! کوئی خوشخبری دیں اور ہمیں بتائیں کہ خان صاحب نے اپنی غلطیوں سے رجوع کیا ہے‘ اپنی مطلق العنان قسم کی حکومت کے نظریے میں کسی نرمی پر آمادہ ہوئے ہیں اور جس دروازے کی چٹخنی ہٹاکر کھول سکتے ہیں اسے اکھاڑنے پہ درپے اپنی طبیعت پر کچھ کنٹرول کیا ہے یا سب کچھ اسی طرح حسبِ سابق ہے اور اگر انہیں دوبارہ اقتدار ملا تو کیا وہ اپنی سابقہ غلطیوں کو دہرانے سے پرہیز کریں گے؟ میرا وہ دوست کہنے لگا: اب آپ کے سوال کا جواب کیا دوں؟ عمران خان کو ملنے اور ان کے خیالات سننے کے بعد میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ نہ صرف اپنی پہلے والی ساری غلطیاں دہرائیں گے بلکہ دوبارہ طاقت ملنے کے بعد ان غلطیوں کو زیادہ شدت اور شدو مد کے ساتھ دہرائیں گے۔ وہ اپنی ہر غلطی کا جواز رکھتے ہیں اور اسے اپنی نئے سرے سے ملنے والی پاپولیریٹی کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں۔ بھلا ایسے میں وہ انہیں دوبارہ کرنے سے کیوں باز آئیں گے؟
پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب سے قبل ایک دوست سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا: (تب ابھی پنجاب اسمبلی کے سپیکرکے امیدوار کا فیصلہ نہیں ہوا تھا) آپ امیدواروں کی تو بات چھوڑیں اصل خبر یہ ہے کہ عمران خان پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ سردار عثمان خان کو اب کی بار سپیکر بنانا چاہتے تھے وہ تو خیر سے خود عثمان بزدار نے معذرت کر لی وگرنہ خان صاحب تو اپنے پیارے کو ایک بار پھر پنجاب پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ میں نے اس دوست سے پوچھا کہ عثمان بزدار نے گھر آئی ہوئی اس آفر کو کیوں ٹھکرا دیا؟ وہ دوست کہنے لگا: اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ وزارتِ اعلیٰ تو منہ بند کر کے خاموشی سے کی جا سکتی ہے لیکن جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سپیکری تو کام ہی بولنے کا ہے۔ یہ اسمبلی کی سپیکری ہے چارلی چپلن کی فلم تو ہے نہیں کہ صرف اشاروں اور ایکشن سے بھگتائی جا سکے۔ جو بندہ میڈیا کے سامنے اس شرط پر آنے کی ہامی بھرے کہ اسے سوالات پیشگی فراہم کیے جائیں اور وہ سوالات مل جانے کے باوجود عین وقت پر پروگرام میں شرکت سے انکار کر دے‘ بھلا وہ اسمبلی میں ہونے والے تابڑ توڑ سوالات اور قواعد و ضوابط جیسی ظالم چیزوں سے کس طرح نپٹ سکتا ہے؟ اگر عمران خان یہی آفر ان کے پہلی بار رکن اسمبلی بننے پر کرتے تو شاید وہ یہ آفر قبول کر لیتے کہ انہیں سپیکر کے فرائض سے آگاہی نہ تھی مگر پونے چار سال تک اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کے بعد بھلا وہ یہ بھاری پتھر اٹھانے پر کیسے تیار ہو سکتے تھے۔ انہیں اپنی صلاحیتوں کا بخوبی ادراک تھا۔ خاموشی سے ”نیویں نیویں‘‘ ہوکر وزارتِ اعلیٰ تو چلائی جا سکتی ہے مگر سپیکر شپ بہرحال وزارتِ اعلیٰ نہیں کہ پونے چار سال خاموش رہ کر گزاری جا سکے۔
میں نے پوچھا: اور دوسری وجہ؟ وہ کہنے لگا: دوسری وجہ کے پیچھے عثمان خان بزدار کی احتیاط پسند طبیعت اور ہوشیاری کارفرما ہے۔ میں نے حیرانی سے کہا: یعنی بزدار صاحب اور فراست؟ وہ دوست ہنسا اور کہنے لگا: آپ بزدار صاحب کی صلاحیتوں کے بارے میں غلط اندازہ لگاتے ہوئے انہیں Underestimate کر رہے ہیں۔ وہ دیکھنے میں جتنے بھولے بھالے لگتے ہیں وہ اتنے ہیں نہیں۔ آپ نے عطا تارڑ کی جانب سے ان کے اثاثوں کے بارے میں پڑھا ہے؟ میں نے کہا: مجھے یہاں ایسی سہولت میسر نہیں۔ وہ کہنے لگا: دروغ بر گردنِ عطا تارڑ‘ ان کے اثاثوں کی ملکیت دس ارب روپے ہے۔ اب وہ نہیں چاہتے کہ وہ لائم لائٹ میں آئیں اور لوگ ان اثاثوں کے گڑے مردے اکھاڑیں۔ وہ اب خاموشی سے نکڑ سے لگ کر اپنی زندگی خوشحالی اور سکون سے گزارنا چاہتے ہیں۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ آج سے چند ماہ پہلے تک عمران خان کی اقتدار کی کشتی میں جو سب سے وزنی پتھر تھا وہ یہی عثمان بزدار صاحب تھے اور خان صاحب کی خراب گورننس پر جب بھی بات ہوتی تھی تو سب سے پہلا نشانہ یہی تعیناتی بنتی تھی اور اس تعیناتی کے پیچھے بھلے سے درجنوں کہانیاں ہوں مگر اس کا کبھی بھی کسی کے پاس کوئی منطقی جواز یا شافی جواب نہیں ہوتا تھا اور اب دیکھیں پنجاب میں دوبارہ اقتدار ملا ہے اور دھوم دھڑکے سے ملا ہے تو وہ پھر بزدار صاحب کو پنجاب پر‘ خواہ سپیکر کی صورت ہی سہی مگر دوبارہ مسلط کرنا چاہتے تھے۔ اگر انہیں دس ووٹوں والے چودھری پرویز الٰہی کے ووٹوں کی محتاجی نہ ہوتی تو کوئی بعید نہیں کہ وہ دوبارہ عثمان بزدار کو ہی وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کر دیتے۔
پھر وہ دوست کہنے لگا: سیاست پر مٹی ڈالو‘ ادھر بارشوں نے بربادی پھیر کر رکھ دی ہے۔ پورے بالائی اور وسطی پنجاب میں شور مچا رہتا تھا کہ پنجاب کے سارے فنڈز جنوبی پنجاب پر خرچ ہو رہے ہے۔ جنوبی پنجاب میں شور تھا کہ سارے پیسے ڈیرہ غازی خان پر صرف ہو رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں رولا مچا ہوا تھا کہ سب کچھ تونسہ میں لگ رہا ہے۔ ادھر یہ حال ہے کہ اربوں روپے کے ترقیاتی اخراجات کے باوجود رودکوہیوں پر پل نہیں بنائے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تونسہ کئی روز سے پاکستان سے کٹا ہوا ہے۔ ملتان‘ ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان سے زمینی راستہ ختم ہو چکا ہے۔ نہ لوگوں کو کوئی امداد پہنچ رہی ہے اور نہ کسی کو ان کی فکر ہے۔ 2010ء کے سیلاب سے زیادہ تباہی مچی ہوئی ہے اور ہمارے سیاستدانوں کو حکومتیں الٹنے‘ عدم اعتماد کرنے‘ گورنر راج لگانے‘ جیت کے جشن منانے اور بھنگڑے ڈالنے سے فرصت نہیں ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔