کابینہ کے ساتھ دھوکے کا معاملہ

تین دسمبر 2019 کو عمران خان حکومت کی کابینہ کے اجلاس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے پاکستان کو 190 ملین پاؤنڈز کی واپسی کے حوالے سے انتہائی متنازع معاملے پر غیر قانونی بحث اور فیصلہ کیا گیا۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مہر بند ’’نوٹ فار دی پرائم منسٹر‘‘ پر کیا گیا اور کابینہ کے غور و خوص کیلئے وفاقی ڈویژنز میں سے کسی کی بھی سمری کے بغیر کیا گیا۔

کابینہ کے ذرائع، نیب تحقیقات اور دیگر متعلقہ حکام کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اس معاملے پر کابینہ کی جانب سے کوئی سمری پیش نہیں کی گئی، جس سے یہ پورا معاملہ غیر قانونی اور غلط کالعدم بن چکا ہے۔

روُلز آف بزنس کے تحت وزارتوں اور ڈویژنوں کی طرف سے پیش کردہ سمریوں کی بنیاد پر کابینہ ایسے فیصلے کرنے کی پابند ہے۔ سرکاری ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ بیرسٹر شہزاد اکبر کی طرف سے پیش کیے گئے “نوٹ فار پرائم منسٹر” کی بنیاد پر کیا گیا۔

پی ٹی آئی حکومت کے ایسیٹ ریکوری یونٹ کے اس وقت کے چیئرمین شہزاد اکبر نے رابطہ کرنے پر اصرار کیا کہ سمری کابینہ ڈویژن نے پیش کی تھی اور کابینہ کیلئے پیش کردہ اسی سمری کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا تھا۔

تاہم، سرکاری ریکارڈ میں ایسی کسی سمری کا کوئی وجود نہیں اور اس معلومات کی تصدیق تمام متعلقہ سرکاری ذرائع بشمول نیب، کابینہ ڈویژن اور وزیراعظم آفس سے وابستہ افراد نے کی ہے۔

کابینہ کے غور کیلئے سمری بھی کابینہ کے تمام اراکین کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں بھی ایسا نہیں ہوا۔

3 دسمبر 2019 کو کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کے دفتر کے اثاثہ ریکوری یونٹ کی جانب سے کابینہ کے سامنے ایک مہر بند “نوٹ” پیش کیا گیا۔ یہ نوٹ کابینہ ارکان کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود کابینہ نے اسے منظور کر لیا اور “نوٹ” کو خفیہ رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ کابینہ کے اجلاس کے باضابطہ منٹس میں کابینہ کی منظوری سے آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ رازداری کو برقرار رکھنے کیلئے کابینہ نے کابینہ سیکریٹری کو نوٹ دیکھنے کی ہدایت کی اور اسے بوقت ضرورت کسی بھی عدالت میں پیش کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔‘‘

میٹنگ منٹس کے مطابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ نے رازداری کی شق کی وجہ سے کابینہ کو، ان کیمرہ، اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات کے معاملے میں پاکستان کو رقوم کی واپسی پر بریفنگ دی۔ کابینہ نے اثاثہ ریکوری یونٹ کی جانب سے 2؍ دسمبر 2019ء کو پیش کیے گئے نوٹ کا جائزہ لیا اور پیرا نمبر 10؍ کی منظوری دی۔ رازداری کی شق کی وجہ سے کابینہ نے کابینہ سیکریٹری کو ہدایت کی کہ بوقت ضرورت وہ یہ نوٹ دیکھ سکتے ہیں اور عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔

ان کیمرا اجلاس سے قبل یہ نوٹ کابینہ ارکان کو دکھایا گیا اور نہ ہی اسے باضابطہ ایجنڈا کا حصہ بنایا گیا۔ اس پر اضافہ ایجنڈا آئٹم کی صورت میں بات کی گئی۔ وزراء کو بھی اس حوالے سے بس سرسری کی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ برطانوی حکومت اور نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ طے پانے والی مفاہمت کی وجہ سے تفصیل نہیں بتائی جا سکتی، لیکن عدلیہ چاہے اور حکم دے تو اس نوٹ کو سیل کھول کر پیش کیا جا سکتا ہے۔

عمومی حالات میں دیکھیں تو قواعد یہ کہتے ہیں کہ ایسے کیس کو صرف رسمی سمری کے ذریعے کابینہ کے روبرو غور کیلئے پیش کا جانا چاہیے تھا۔ کیس کی نوعیت کے پیش نظر کابینہ ڈویژن اس معاملے کو کابینہ کے سامنے رکھنے سے قبل وزارت خزانہ، قانون، خارجہ امور اور اٹارنی جنرل آفس سے مشاورت کرنے کا پابند تھا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔

ایک سرکاری ذریعہ کے مطابق، یہ کابینہ کے ساتھ دھوکے کا کیس ہے۔