معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
غداری کا مقدمہ؟
اسلام آباد سے خبر آئی ہے کہ وفاقی کابینہ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے‘وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جو تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف دستور کی دفعہ6 کی خلاف ورزی کے حوالے سے مقدمہ قائم کرنے کا جائزہ لے گی۔اس کے ساتھ ہی سابق چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کو بلیک میل کرنے کے الزام کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔یاد رہے ایک خاتون طیبہ گل کی جناب چیئرمین کے ساتھ مبینہ نازیبا گفتگو کی ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی تھی‘ جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ اس کے ذریعے چیئرمین موصوف کو دبائو میں لا کر سابق حکومت نے ان سے اپنی مرضی کے اقدامات کرائے۔ مذکورہ بالا خاتون کئی ٹی وی چینلز پر نمودار ہو کر سابق وزیراعظم اور ان کے بعض قریبی افراد پر اس حوالے سے سنگین الزامات لگا چکی ہیں۔انہیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں بھی طلب کیا گیا تھا‘ وہاں بھی انہوں نے اپنی مبینہ بپتا کی تفصیل بیان کی تھی۔ اصولاً تو اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد ہی اس معاملے کی تحقیقات کی جانی چاہئیں تھیں‘ لیکن اس وقت کی وفاقی حکومت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی نہ(سابق) چیئرمین نیب نے اس پر زور دیا‘ نہ ہی کسی عدالتی فورم پر اس کو اٹھایا گیا۔سووموٹو ایکشن تو درکنار کوئی سنجیدہ درخواست بھی دائر نہیں کی گئی‘اس وقت کی اپوزیشن نے بھی جو کہ نشانہ بنی ہوئی تھی‘اس معاملے کو شدت سے نہیں اٹھایا۔ کچھ میڈیائی اور سیاسی حلقے اس کا کچھ نہ کچھ ذکر کرتے اور اس حوالے سے سوال اٹھاتے رہے‘لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد مذکورہ خاتون سرگرم نظر آ رہی ہیں‘ اور یہاں تک الزام لگا گزری ہیں کہ انہیں کئی دن وزیراعظم ہائوس میں محبوس رکھا گیا‘ اور جو ویڈیو انہوں نے شکایت کے طور پر پیش کی تھی‘اسے چیئرمین نیب کو دبائو میں لانے کے لیے تو استعمال کر لیا گیا‘لیکن ان کی داد رسی نہیں کی گئی۔ یہ معاملہ بہت حساس نوعیت کا ہے‘اس لیے اس پر کسی حاشیہ آرائی سے گریز لازم ہے۔ اس کی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے‘وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔کمیشن آزاد‘ خود مختار اور باوقار ہونا چاہیے‘جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جانا چاہیے جس سے یہ تاثر ملے کہ یک طرفہ طور پر سابق چیئرمین یا وزیراعظم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسا کوئی بھی تاثر ہماری سماجی اور سیاسی زندگی کو مزید گدلا کرنے کا سبب بنے گا۔
جہاں تک سابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کالعدم قرار دینے کے بارے میں سابق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا تعلق ہے‘ سپریم کورٹ اسے پہلے ہی غیر آئینی قرار دے چکی تھی۔ اس حکم کے نتیجے ہی میں اس قرارداد پر ووٹنگ ممکن ہوئی تھی۔ عمران خان کی جگہ شہباز شریف وزیراعظم بنے تھے۔ سپریم کورٹ نے جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے‘ اس سے حالات و واقعات میں کوئی جوہری تبدیلی واقع نہیں ہوئی کہ مختصر حکم کے ذریعے مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جا چکے ہیں۔ اب جو تفصیل جاری کی گئی ہے‘ اس سے وہ استدلال سامنے آ جاتا ہے‘ جو مذکورہ فیصلے کا سبب بنا۔سپریم کورٹ نے عمران خان کے اس بیانیے کو تسلیم نہیں کیا کہ ان کی حکومت کو غیر ملکی سازش کے ذریعے ہٹایا گیا۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر کی طرف سے بھیجا جانے والا ”سائفر‘‘ جسے سارے ہنگامے کی بنیاد بنایا گیا‘ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہی نہیں کیا گیا؛چنانچہ اس کے بارے میں کوئی تحقیقات عمل میں آئیں‘نہ ہی عدالت نے کسی حتمی رائے کا اظہار کیا‘عدالت کا سارا زور اس بات پر ہے کہ جب قرارداد عدم اعتماد ایوان میں پیش کی جا چکی تھی تو پھر سپیکر(یا ڈپٹی سپیکر) کو اسے مسترد کرنے کا کوئی آئینی حق حاصل نہیں تھا۔اس پر بہر صورت رائے شماری ہونی چاہیے تھی۔ ڈپٹی سپیکر نے وزیر قانون(فواد چودھری) کی تحریک پر‘ اپوزیشن کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیے بغیر اسے مسترد کر دیا‘ تو یہ آئین پاکستان کی صریح خلاف ورزی تھی۔ تحریک مسترد ہوتے ہی وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کر دی‘جسے صدرِ مملکت نے فوری طور پر منظور کر لیا‘ یوں عوام کے منتخب ایوان کو غیر آئینی طور پر تحلیل کر دیا گیا۔وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی سپیکر مسترد نہیں کر سکتا تھا‘ اس لیے اس کی رولنگ کالعدم ہو گئی‘ نتیجے میں وزیراعظم عمران خان کا وہ اختیار ختم ہو گیا‘جس کے تحت وہ صدرِ پاکستان کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دے سکتے تھے۔ عمران خان ایک ایسے وزیراعظم تھے‘ جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی‘اس لیے اسمبلی تحلیل کرنے کا ان کا اختیار ختم ہو چکا تھا۔ عدالت کے فیصلے میں صدرِ مملکت‘ وزیراعظم‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر اور وزیر قانون کے خلاف حکومت کو کسی کارروائی کا حکم نہیں دیا گیا۔ایک جج کے اضافی نوٹ میں اس بات کا جائزہ لینے اور پارلیمنٹ کو اس حوالے سے اقدام کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ سپریم کورٹ نے دفعہ 6کی کارروائی کی ہدایت کی ہے‘ تو یہ کسی طور درست نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے وفاقی کابینہ کا اختیار کسی عدالتی فیصلے کا محتاج یا اس سے مشروط نہیں ہے‘ وفاقی کابینہ کو یہ قانونی اختیار ہے کہ وہ اگر سمجھے کہ کسی شخص یا اشخاص نے آئین کو سبوتاژ کیا ہے تو مقدمہ درج کرا دے‘جہاں تک زیر بحث معاملے کا تعلق ہے ‘یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستانی سیاست کو اس وقت ٹھہرائو‘ تحمل اور برداشت کی جو ضرورت ہے‘ شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ حکومت اور اپوزیشن میں سے جو بھی ماحول کو ٹھنڈا کرنے یا اس پر پانی ڈالنے کی کوشش کرے گا‘ اسے تحسین کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا‘ جس اقدام سے اشتعال میں اضافہ ہو‘ محاذ آرائی بڑھے‘ جذبات برانگیختہ ہوں وہ پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ سپریم کورٹ کی مداخلت نے تحریک عدم اعتماد کو روکنے کے لیے غیر آئینی اقدامات کی بروقت نفی کر دی تھی‘ تفصیلی فیصلے نے صورت حال کو اچھی طرح آشکار کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کو اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ آئندہ کسی سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کو اس طرح کی حرکت سے کیسے باز رکھا جا سکتا ہے‘ ان کے خلاف کوئی سزا تجویز کی جا سکتی ہے‘ لیکن آئین کی کسی شق کی خلاف ورزی یا غلط تشریح کو ”انتہائی غداری‘‘ قرار دینا ایک ایسا معاملہ ہے جس پر بلا سوچے سمجھے اقدام سازی ہماری مشکلات میں شدید اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔یاد رکھنا چاہیے کہ محض قانون شکنی‘ دہشت گردی نہیں ہوتی۔ گناہ گار کافر نہیں ہوتا۔ سرخ بتی کو کراس کرنے والے کا چالان تو ہو سکتا ہے‘ اسے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ غداری کے تمغے بانٹنے سے ماضی میں کسی کے ہاتھ میں کچھ آیا ہے ‘نہ مستقبل میں آنے کی توقع لگائی جا سکتی ہے ؎
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں